اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت اپنے مہربانوں کی مہربانی کے سبب کالعدم تحریک لبیک کی احتجاجی تحریک سے پیدا ہونے والے بحران سے تو بخیریت نکل آئی ہے لیکن آنے والے دنوں میں اسے سیاسی میدان کے بجائے پارلیمانی ایوان میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں اچانک جو ہلچل نظر آرہی ہے اسے موجودہ حکومت کے لئے نیک شگون نہیں کہا جاسکتا۔ کئی سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ نہ جانے انہیں کیوں یہ محسوس ہورہا ہے کہ مستقبل قریب میں موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پھر سے ایک صفحے پر آجائیں گی جس دن اگر ایسا ہوگیا تو اسے موجودہ حکومت کی رخصتی کا غیبی اشارہ سمجھا جانا چاہیے ۔ اس وقت اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی ،مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ لندن میں قیام پزیر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ملک و قوم کی خاطر سیاسی مزاحمت کے اپنے بیانئے کو ترک کرکے تحریک عدم اعتماد کے سیاسی آپشن کو استعمال پر راضی ہوجائیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے مختلف رہنما اپنے اپنے طور پر مسلم لیگ( ن )کے مزاحمتی گروپ کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ اس وقت قومی مفاد میں بیانیئے کو پس پشت ڈال کر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پنجاب و قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا کڑوا گھونٹ پینے کے پر آمادہ ہوجائے ۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ جو نیب کیس میں دوسال سے اسیر تھے اور اس دوران درجنوں پیشیوں میں ان کی ضمانت یا نیب کی جانب سے کیس میں بنیادی امور پورے کرنے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی خورشید شاہ کی ضمانت کا معاملہ ہر مرتبہ تاریخ پر تاریخ پرٹلتا رہا اور کچھ لوگوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ خورشید شاہ کو اسیر رکھنے کی خواہش خود ان کے اپنے کچھ بہی خواہوں کی بھی ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ وہ جیل سے باہر آئیں ۔اطلاعات آئی ہیں کہ قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کو جن کے میاں نواز شریف سے انتہائی قریبی مراسم ہیں انکی خدمات نواز شریف کے ساتھ سیاسی معاملات پر بات چیت کے لئے بروئے کار لائی جارہی ہے ۔نواز لیگ کے کئی سرکردہ رہنماوں کے بھی خورشید شاہ سے دیرینہ سیاسی تعلقات ہیں۔ لیگی رہنماوں کی خواہش ہے کہ خورشید شاہ نہ صرف میاں نواز شریف کو مزاحمت کے بجائے عارضی مفاہمت پر قائل کرنے کے لئے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریں بلکہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے درمیان سیاسی فاصلوں کو ختم کرائیں تاکہ پی ڈی ایم بھر پور پارلیمانی اور سیاسی قوت کے ذریعے حکومت کو گھربھیج سکے معلوم ہوا کہ مولانا فضل الرحمن جو عمران حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن سے کم پر کسی طور تیار نہ تھے اب وہ بھی کچھ نہ کچھ لچک دکھانے پر مائل دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق 11نومبر کو اسلام آباد میں طلب کیا جانے والا پی ڈی ایم کاسربراہی اجلاس غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جو میاں نوازشریف کی خصوصی درخواست پر بلایاگیا ہے ۔امکان ہے کہ پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر سنجیدگی سے غور ہوگا ۔ بظاہر تو مسلم لیگ(ن) کی اعلی قیادت کے لئے اپنے بیانئیے سے یوٹرن لینا اتنا آسان نہیں لیکن سیاست میں کوئی بھی چیز اٹل اورغیر لچکدار نہیں ہوسکتی ممکن ہے کہ قومی سیاست کے نئے تقاضے نواز لیگ کو اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور کردیں۔