اسکردوبلا شبہ پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اس دھرتی کاسب سے حسین خطہ ہے۔ یہاں کے ہر گاؤں اور ہر قصبے میں بجلی موجود ہے۔ لوگوں کی معاشی حالت اگرچہ زیادہ بہتر نہیں مگر ہم نے اپنےمختصر قیام کے دوران وہاں کوئی گداگر نہیں دیکھا۔ پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہاں گداگر نہیں ہوتےاور وہاں کوئی بھیک مانگتا نظر نہیں آئے گا عورتوں کو گھروں میں بند کر کے رکھنے کا رواج بھی نہیں۔ عورتیں مردوں ہی کی طرح بازاروں میں، کھیتوں میں اور دوسرے شعبوں میں کام کرتی اور چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ہمارا آخری دن کا سفر شغر فورٹ یعنی چٹان والا قلعہ تھا جو وادئ شغر میں واقع ایک قدیم علاقہ ہے۔ یہ قلعہ 17 ویں صدی میں اماچہ خانان نے تعمیر کیا تھا۔ سطح سمندر سے اٹھائس سو میٹر بلندی پر واقع یہ وادی برف سے ڈھکی چوٹیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے اس کے ساتھ میدان، سبزہ زار جنگلات ، چیری سیب لوکاٹ اور شہتوت سے لدے درختوں سمیت ٹھنڈے تازہ پانی کے چشمے ہر طرف موجود ہیں اس وادی کے حسن نے ہمیں اپنا اسیر کر لیا۔ شغر فورٹ کو اس کے وارثوں نے کرائے پر دے دیا جو اب ایک بوتیک ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہے مگر قلعے کی شکل نہیں بدلی گئی۔ باقیات بھی موجود ہیں۔ یعنی نواب صاحب کا ایوانِ خاص، باورچی خانہ، خواب گاہ، مطالعے کا کمرہ۔ وہیں کچھ فارسی اور مقامی زبان میں لکھی ہوئی کتابیں بھی ہیں، جو اکثر حضرت علیؓ اور بی بی فاطمہؓ کی منقبت پر مبنی ہیں۔ ہمیں اس قلعے کے کچھ حصوں تک ہی رسائی ملی کیونکہ ہوٹل بننے کے بعد اس کے کمرے بک تھے اور سیاح ان میں قیام پذیر تھے۔ لکڑی اور پتھروں سے بنا یہ قلعہ ایک شاہکار تھا۔ جہاں کچھ دیر لان میں بیٹھ کر بارہ دری کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور لان میں موجود سو سال پرانے درخت کی بھی زیارت کی۔ ظہرانہ قلعے کے باہر ایک مقامی ہوٹل میں کیا۔
شغر وادی میں چلتے پانی کے ندی نالوں اور خوبانی، آلوچے اور بادام اور چیری اور شہتوت کے درختوں اور اُن پر پھولتے سفیدونیلے پھولوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ دائیں جانب درخت تھے اور چھاؤں تھی، بائیں جانب بھی درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ موجود تھے اور چھاؤں تھی۔ ان کے درمیان موجود راستے سے جب آپ گزرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کسی افسانوی دنیا کا منظر ہو ۔ اْوپر نظر کیجیے تو سفید پربت اور اُن سے پھوٹتے ہوئے ہزاروں چشمے اور چشموں سے پتلے پانی کی دھاریں گراتے جھرنے بس نیچے ہی نیچے پھسلتے آتے تھے اور شہر کی اور دیہات کی ندیوں کے کشکول بھرتے جاتے ہیں۔ یہ ندی نالے گھر گھر کے دروازے سے گزرتے ہیں ۔ گرمیوں میں یہاں درختوں پر پھل اتنا ہوتا ہے کہ کھانے والے نہیں ملتےاکثر ان کو خشک کرکے بڑے شہروں کی طرف بھیجا جا تا ہے اور یہ لوگوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے جگہ جگہ خوبانی، آلوبخارا، آلوچہ کو خشک کرنے کے کمرے بنے ہیں، جہاں ہوا کو بند کرکے پھل خشک کیا جاتا ہے۔یہاں سوائے ندی نالوں اور پرندوں کے شور کے، کوئی دوسرا شور نہ تھا۔ لمبے بالوں والی اور موٹی آنکھوں والی بھیڑیں تھیں، بکریاں تھیں اور گائیں تھیں اور یاک تھیں ۔ اس خطے کی سب سے خوبصورت بات یہاں کا پر امن ماحول اور جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ وادئ شغر کے سفر کے دوران مقامی پولو گراؤنڈ سے بھی گزر ہوا۔ اس سفر میں ایک مقام کے بارے میں لکھنا بھول گئی شاید اسلئے کہ وہ قابل ذکر نہیں لگا۔ اس مصنوعی جھیل کا نام شنگریلا ہے جو کہ بہت مشہور ہے لیکن چونکہ ہمیں اس جھیل نے کوئی خاص متاثر نہیں کیا سو اس کا ذکر ہی ذہن سے نکل گیا ہر چیز مصنوعی پن کا شکار تھی لہٰذا کوئی خوشگوار تاثر نہیں قائم ہو سکا دراصل ہم قدرتی اور فطری حسن کے دلدادہ ہیں جو پھول بے ترتیب جھاڑیوں میں حسین لگتے ہیں وہ نفاست سے سجے گلدان میں کہاں کوئی حسن کا تاثر چھوڑ سکتے ہیں ۔ خیر اس جگہ بمشکل ایک گھنٹے گھوم پھر کر واپس پلٹ گئے ہماری گائیڈ حیران تھی کہ یہاں لوگ چار پانچ گھنٹے ٹہرتے ہیں جبکہ ہم بمشکل ایک گھنٹہ بھی نہیں رکے۔ جھیل کےآس پاس ریزورٹ والے علاقےممنوع تھےاور جھیل میں بھی جانا منع تھا اب چند سو گز پر رک کر ہم کیا لطف اندوز ہوتے افسوس ہی ہوا کہ اس جگہ داخلے کے ٹکٹ بھی تھے جو سمجھ سے باہر تھے۔
شغر فورٹ سے واپسی میں اسکردو کے بازار سے کچھ شاپنگ بھی کی اور خصوصی طور پر وہاں سے قیمتی پتھروں کے بنے ہوۓ چھوٹے چھوٹے زیورات خریدے۔ کچھ مٹھائی کھانے کا موڈ بنا تو آگے بازار کی جانب بڑھے۔ اسی اثنا میں راستے میں خوبصورت جامع مسجد پر نظر پڑی جو کہ ایرانی آرٹ اور کیلی گرافی سے مزین تھی۔ دروازے پر تعینات گارڈ سے اجازت لے کر اندر تصاویر لیں۔
دن ڈھل رہا تھا اور سورج غروب ہونے کا منظر نہایت حسین تھا لہذا کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ بازار سے گزرتے ہوے محمد علی سدپارہ کے مجسمے پر نظر پڑی جو بیچ چوک پر نصب تھا اور شہر میں آنے والوں کو قومی پرچم ہاتھ میں تھامے خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ ہم نے رک کر پہلے اس قومی ہیرو کو سیلوٹ کیا اور پھر یادگار کے طور پر تصویر بھی لے لی۔
اپنی آخری رات ہوٹل میں یادگار بنانے کے لئے وہی کاروائی ڈالی یعنی کھانا پکانے کا مشغلہ ,طے ہوا کہ سادہ کھانا بنایا جائے سو کالی دال چاول بنائی اور اچار کے ساتھ خوب مزے لے کر کھائی۔ویسے اسکردو سے واپسی پر دل تھوڑا اداس ضرور ہوا۔ ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی آرزو ہے کی کیفیت کے ساتھ واپسی کا سفر اختیار کیا۔ قدرت کی فیاضیوں اور نعمتوں سے مالامال، دلفریب مناظر،پانیوں کی نغمگی اور پہاڑوں کی کشش ، اس جنت نظیر دھرتی کا نام اسکردو ہے۔ اب جب بھی ان تصاویر اور ویڈیو کو دیکھتی ہوں تو ایک نغمے کی گونج کانوں میں آتی ہے۔۔۔ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم
ختم شد
( اس سفر کے دوران لی گئی ویڈیوز بہت جلد آپ ہمارے یو ٹیوب چینل پر دیکھیں گے جو ابھی ایڈیٹنگ کے مرحلے میں ہے )یو ٹیوب کا لنک :
https://youtube.com/channel/UCZlMP9nZ8472bDgCF4BS_tw
































