بلوچستان اپنے قدرتی جنگلوں، پہاڑوں، پانی کی گزرگاہوں، جھرنوں اور آبشاروں کی وجہ سے ہر ایک کے لیے کشش رکھتا ہے۔
یہ قدرتی مقامات جہاں ہمیں صاف شفاف پانی، پہاڑوں سے نکلتے ہوئے پانی کے خوبصورت نظارے ملتے ہیں، صوبےکے ہر علاقے میں موجود ہیں۔ لیکن ان تک رسائی مشکل ہے، جن کے بارے میں صرف مقامی لوگ ہی جانتے ہیں۔
شاہد خان بھی قدرتی ماحول کے دلدادا اور فراغت کے لمحات میں ایسے ماحول میں رہنا پسند کرتے ہیں، جہاں علاقہ پہاڑی ہو، پانی کی آواز ہو اور شہر کا شور شرابہ نہ ہو۔
وہ بلوچستان کے اکثر مشہور سیاحتی مقامات کی سیر کرچکے ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ بلوچستان اب بھی پوری طرح دریافت نہیں ہوا ہے۔
شاہد خان کے بقول سیاحت کے حوالے سے بلوچستان اتنے مقامات سے بھرا ہوا ہے کہ اگر کوئی ان کو دیکھنا چاہے تو وہ تھک جائے گا لیکن یہ ختم نہیں ہوں گے۔
یہ سیاحتی مقام قدرتی ہے اور یہاں پر مصنوعی طور پر کوئی چیز نہیں بنائی گئی۔ یہ پانی کئی زمانوں سے ایسے ہی نکل رہا ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ پہلے بہت زیادہ تھا مگر اب کم ہوگیا ہے۔
اسے پیر غائب اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ایک مزار ہے جس کے پیر کا نام پیر غائب مشہور ہے اور اس پانی میں کبھی لوگ چوری کا فیصلہ کرواتے تھے۔
طریقہ کار یہ تھا کہ پیر کے مزار کا فقیر چوری کے الزام میں ملوث شخص کو پانی میں ڈبوتا اور ایک مقررہ وقت تک پانی میں رہنے کا کہتا اگر وہ وقت سے پہلے نکل آتا تو اسے چور تصور کرتے تھے۔
محقتین کے مطابق اس کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ نہ ہی اس کا تذکرہ قدیم تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔
یہ ایک خوبصورت مقام ہے۔ پہاڑ سے پانی نکل کر نیچے گرتا ہے اورجو آبشار ہے۔ یہاں پر درخت بھی ہیں، یہ مقام پہاڑوں کے درمیان ہے۔ جسے اب حکومت نے باقاعدہ سیاحتی مقام بنانا شروع کر دیا ہے۔
حکومتی امور پر نظر رکھنے والے اور ناقد رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے سیاحت کے حوالے سے کام اتنا بھی تیزی سے نہیں ہو رہا ہے جس طرح کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
رشید کے بقول: سیاحتی مقامات پر کے فروغ کے لیے سب سے اہم چیز سڑک ہے۔ جس کو قابل ترجیح ہونا چاہیے باقی چیزیں بھی اسی سے ممکن بنائی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت سیاحت کا فروغ چاہتی ہے تو اسے ان علاقوں تک پہلے رسائی کو آسان بنانا ہوگا۔ اب جو سیاحتی مقامات جیسے خضدار میں مولہ چٹوک ہے وہاں مقامی لوگ ہی جا سکتے ہیں۔ دیگرعلاقوں سے کوئی مشکل سے آئے گا۔