01/06/2023

ہم سے رابطہ کریں

جسمانی صحت ، خوشی و راحت کی کیفیت کا دارومدار  ذہنی صحت پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی وجہ سے ذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس کے اثرات پورے انسانی جسم پر مرتب ہوتے ہیں ،کیونکہ دماغ ہی سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب ہی بہت سی اعصابی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن کا بروقت علاج بہت ضروری ہے۔

ہمارےکالموں کا یہ سلسلہ اسی موضوع پر مبنی ہوگا جس میں زندگی کےمختلف مسائل سے دوچار  افراد کے لئے ایسے متبادل حل تجویز کئے جائیں گے جن کے ذریعے وہ ذہنی پریشانیوں سے خود کو بچاسکتے ہیں۔ محترمہ عمرانہ گیلانی جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ماہر نفسیات ہیں جو  اپنے کالم کے ذریعے لوگوں کے  مسائل اور اُن کا حل تجویز کریں گیں۔

سانحہ کے بعد حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

کسی بھی تکلیف دہ واقعہ یا سانحہ کا پیش آنا اور اس کو برداشت کرنا ایک نہایت مشکل امر ہے ۔ کسی بھی نوعیت کے سانحہ سے صرف وہ لوگ  براہ راست متاثر نہیں ہوتے جن پر وہ گزرتا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں جو اس کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں اور انہیں بھی اس کے بارے میں جان کر ایک کرب اور اذیت کا احساس ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا بہت زیادہ تجربہ ہے جو مختلف اوقات میں بہت سے سانحات کا سامنا کرتی رہی ہے ۔اگر ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قومی سطح پر سب سے زیادہ کربناک صورتحال کا سامنا 1947ء میں تقسیم ہند اور ہجرت کے وقت کیا تھا ۔ہمارے جن بزرگوں نے اس وقت قتل و غارت گری اپنی آنکھوں سے دیکھی یا جن کے عزیز و اقارب ان سے چھین لئے گئے وہ زندگی بھر ان واقعات کی ہولناکی کو فراموش نہ کرسکے اور  ان کی پوری زندگی میں یہ کربناک واقعات کسی مہیب سائے کی طرح ان کا تعاقب کرتے رہے ۔ ایسے واقعات کو یاد کرکے بہت سے لوگ خود کو یہ سوچ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے کہ ہمارے دین نے شہیدوں کا درجہ بہت بلند رکھا ہے۔ ان باتوں سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض ناخوشگوار واقعات اور صدمات لوگوں کی نفسیات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پوری نفسیات کو ہی بدل کررکھ دیتے ہیں ۔جب ہم ایسے واقعات کے بارے میں سوچتے ہیں تو اداس اور بے چین ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ پاکستانی قوم نے بہت سے سانحات کا بڑی ہمت اور بہادری سے مقابلہ کیا ہے انہی سانحات میں سے ایک قومی سانحہ اکتوبر 2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختوخوا میں آنے والا ہولناک زلزلہ تھا جس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے ، سیکڑوں بسی بسائی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور تباہی و بربادی ایسی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔پھر ایسا ہی ایک دوسرا بڑا سانحہ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا جہاں دہشت گردوں نے بہت سے معصوم بچوں ، ان کے اساتذہ اور دیگر لوگوں کو شہید اور زخمی کردیا اس سانحہ کا کرب اور اس کی شدت پوری قوم نے یکساں طور پر محسوس کیا۔ اس سانحہ کے بعد پوری قوم شدید ذہنی کرب اور پریشانی میں مبتلا نظر آتی تھی۔ میڈیا پر دکھائی جانے والی تصاویر اور فلموں نے قوم کو شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا جس کے بعد لوگوں کی رات کی نیند اور دن کا چین جاتا رہا۔ اس کے علاوہ ماضی قریب میں زینب قتل کیس، آبروریزی کے واقعات،  مسلح ڈکیتی کی وارداتیں  ، اغوا ، لوٹ مار اور جرائم کے دیگر واقعات  ہماری نفسیات اور ذہنی کیفیت کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں اور یہ صورتحال ہمارے اندر  مایوسی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے اضطراب کی اگر وجوہات تلاش کی جائیں تو معاشرتی نا انصافی ، ہوشربا گرانی ، قانون کی عدم پاسداری لوگوں کے درمیان ایک دوسرے سے آگےبڑھ جانے کی جستجو اور حصول دولت اور معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنے کی خواہش یہ ایسے بنیادی عوامل ہیں جو ہماری نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔انہی وجوہات کی بنا  پر معاشرے میں قوت برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ معمولی باتوں پر تکرار اور پھر پرتشدد جھگڑے ہمارے معاشرے میں معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ صورتحال اجتماعی اور انفرادی ہر سطح پر با آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہم خود کو اس ماحول سے الگ نہیں کر سکتے لیکن کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ اس صورتحال کو کس طرح ایک صحت مند معاشرے کی طرف لے کر جائیں۔ اس کی ابتداء اپنے اطراف کے لوگوں سے کی جائے یعنی ہمیں اس بات کی آگہی ہونی چاہئیے کہ حالات کی سنگینی یا سانحہ کے متاثر فرد کے ساتھ کیسا روّیہ رکھنا ہو گا جس سے وہ صدماتی کیفیات سے نکل سکےاور ذہنی طور پر ایک صحت مند فرد کی مانند اپنے گھر اور معاشرے میں کردار ادا کر سکے۔ اس مقصد کے لئے کچھ باتوں کا جاننا بہت اہم ہے جیسے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ مسلسل منفی خیالات کا اظہارکرے یا کسی بڑے جذباتی یا مالی یا جسمانی نقصان کے بعد کوئی فرد کسی پر اعتبار نہ کر پائے اور معمولات زندگی ادا نہ کر پائے، خوفزدہ رہنے لگے تو کچھ اقدام ہیں جن پر عمل کر کےہم نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو کسی بھی سانحہ کے نتیجےمیں مرتب ہونے والے منفی اثرات سے نکال سکتے ہیں۔ کسی بھی المیہ یا سانحے کے بعد ہمارے اندر کچھ مخصوص علامات نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں اگر بر وقت ان کا علاج نہ کیا جائےتو یہ فرد کی نارمل زندگی پر اثر انداز ہونا شروع ہو جاتیں ہیں۔* نیند کا نہ آنا یا بہت ذیادہ سونا* اداسی، یاسیت ، بے چینی، غصہ* احساسات کا ختم ہو جانا* کمزوری* بھوک کا نہ لگنا یا بہت ذیادہ کھانا* خوف کا احساس* ہی باور کرنا کہ اس تکلیف میں صرف میں ہی مبتلا ہوں* جس حادثہ سے گزرے ہوں اس سے متعلق بار بار خواب کا آنا* ذہنی طور پر غیر حاضر رہنا* سر درد، جسم درد، معدہ کا درد وغیرہ اگر کسی بچے نے نو عمری میں کسی اذیت ناک صورتحال کا سامنا کیا ہے مثلاً اغوا، زنابا لجبر، ایکسیڈنٹ ، والدین میں سے کسی کا فوت ہونا یا کسی کا تشدد کرنا یا کسی پر کوئی ذیادتی ہوتے ہوئے دیکھنا وغیرہ تو وہ  بچہ عموماً اِن کیفیات کا اظہار کرتا ہے:-* شدید خوفزدہ* دوستوں سے کترانا اور اسکول جانے سے گھبرانا* کسی سے بھی نظریں نہ ملانا* تنہائی سے خوف کھانا* اونچی آوازوں سے خوف محسوس کرنااکثر ایسی صورتحال میں کچھ نوجوان نشہ آور ادویہ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ہمارے کسی عزیز و احباب میں سے کسی  کو ناقابل برداشت صدمے سے دوچار ہونا پڑے تو ہمیں یہ علم ہونا چاہئےکہ کسی معالج کے پاس جانے تک ہم کیسے خود کی یا دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔※ متاثرہ شخص کی غذا اور آرام کا مکمل خیال رکھا جائے※ سکون کے لئے عبادت میں دل لگائیں※ جب بھی بے سکونی محسوس کریں یا گذرا ہوا مشکل وقت یاد آیے تو گہرے گہرے سانس لیں اور کسی پسندیدہ منظر، واقعہ یا رشتے کو یاد کریں※اپنے آپ کو مصروف رکھیں، ورزش کریں، گانے سنیں یا پسندیدہ کتابیں پڑھیں※اگر آپ کسی ایسے سانحہ کا شکار ہؤے ہیں جو کہ خبروں کا مرکز بن رہا ہے تو اس سے متعلقہ خبروں سے دور رہیں کیونکہ خبروں کا یہ تسلسل آپ پر صدمہ کا اثر کم نہیں ہونےدے گا※ دوستوں ، رشتی داروں اور ایسے ہمدرد لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جن کی موجودگی آپ کے لئے باعث سکون و اطمنان ہو اور آپ کو تحفظ کا احساس دلائے۔※اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ یہ تکلیف دہ دن بھی گزرجائیں گے کیونکہ یہی فطرت کا اصول اور قانون قدرت ہے۔جہاں تک بچوں اور نوجوانوں کا تعلق ہے اگر ان کے والدین ، اساتذہ اور دوست احباب محبت و ہمدردی سے ان کے احساسات کو سمجھیں اور ان کی بات سنیں تو ان کے گرد محفوظ ، ہمدرد اور قابل بھروسہ ماحول بن جائے گا جس کی وجہ سے وہ اپنے تکلیف دہ تجربے اور اس کی تلخ یادوں سے جلد نجات پاسکتے ہیں۔یہاں پر متاثرہ بچوں میں احساس اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ہم ان کے احساسات و خیالات کو ویسے ہی سمجھ رہے ہیں جیسا کہ وہ بتانا چاہتے ہیں۔ بچوں کے سلسلے میں ذرا محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ اگر ان کی  صدماتی کیفیت کو جلد ختم نہ کیا گیا تو ان کی شخصیت متاثر ہوسکتی ہے ۔سب سے پہلے بچے کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ زندگی میں کچھ بھی اچھا ہو یا برا ہم ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گے ۔بچوں کو پرتشدد کارٹون اور ڈراموں سے دور رکھیں تاکہ ان کا دماغ پرسکون رہ سکے ۔ بچے کو یقین دلائیں کہ اسے نقصان پہنچانے والے کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔اس کے معمولات زندگی برقرار رکھنے میں مدد کریں اس سلسلے میں اسکول و کالج کے اساتذہ اور دوستوں کو بھی اعتماد میں لے لیں تو بہتر ہے ۔اگر وہ اپنی ذہنی حالت اور حادثے کے بارے میں بات کریں تو سنجیدگی سے سنیں زبردستی یا مسلسل سوالوں سے اسے ہرگز پریشان نہ کریں۔ بچوں کو تحفظ کا یقین ضرور دلائیں مگر ان سے غیر حقیقی وعدوں سے گریز کرنابہتر ہے۔ ہر بچے کے اپنے احساسات کے اظہار کا طریقہ مختلف ہوسکتا ہے بعض بچے گفتگو کے ذریعے اور کچھ  ڈرائنگ کے ذریعے اپنی کیفیت کا اظہار کرتے ہیں لہذا اظہار کے طریقوں کو سمجھیں اور ان کی پریشانی دور کریں ۔ گھر کے کسی فرد پر جو حادثہ گزرا ہے اس میں گھر کے دیگر افراد ، دوست ، رشتہ دار کس طرح کا کردار ادا کرتے ہیں یہ بات کسی فرد کو صدماتی کیفیت سے نکالنے یابڑھانے میں اہم ثابت ہوتی ہے ۔ ان تمام تدابیر کے باوجود اگر کسی نفسیاتی اور جسمانی علامات میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کے لئے اپنے روزمرہ کے معمولات برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔

Share            News         Social       Media