29/05/2023

ہم سے رابطہ کریں

   تحریر

ڈاکٹر فرحت ناز رحمٰن

ہم خوش نصیب ہیں کہ آج ایک مرتبہ پھر 12ربیع الاول کی مبارک ساعتیں اپنی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔یہ ماہ مبارک صرف امت مسلمہ کے لئے نہیں بلکہ پوری بنی نوح انسانیت کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔تقریباً ساڑھے 14 سو سال قبل یہی مبارک مہینہ تھا جب نبی آخرالزماںﷺ اس دنیا میں تشریف لائے اور اپنی حیات طیبہ میں پورے عالم انسانیت کو رشد و ہدایت کا ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات عطا کیا جو قیامت تک ان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔جناب رسالتمآب ﷺانسان کامل، ہادی برحق اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔آپ ﷺکی حیات طیبہ کے حالات و کمالات اور فضائل و معجزات کو بیان کرنے کا نام ہی درحقیقت عید میلاد النبی ﷺہے۔ایک امتی کی زندگی میں شام و سحر کا بھلاوہ کون سا ایسا پہر ہوگا جو یاد مصطفی ﷺسے خالی ہو۔ہرسال جب آقائے دوجہاںﷺ کا یوم ولادت باسعادت آتا ہے ،یاد مصطفیﷺ اور شہر نبی سے جڑی یادیں اور بھی زیادہ تر و تازہ کردیتا ہے۔آج پھر عید میلاد النبیﷺ کی مبارک ساعتیں ہیں تو مدینہ منورہ کی یادوں نے ذہن پر پھر ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔رسالت مآب ﷺاور ان کے شہر سے کون سا مسلمان ہوگا جسے عشق نہ ہو لوگ اپنی پوری زندگی در رسولﷺ کی حاضری کی دعاﺅں میں گزاردیتے ہیں لیکن اسکے باوجود کچھ کی امید بر آتی ہے اور کچھ یہ تمنا لئے اس جہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔در رسولﷺ پر بار بار حاضری کے حوالے سے میں خود کو بلاشبہ بہت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ آقاﷺ نے اتنا کرم کیا جتنی میری اوقات نہ تھی اور اتنی بار اپنے در دولت پر بلایا کہ مجھے خود بھی یاد نہیں کہ وہاں کتنی مرتبہ جانا ہوا۔ گزشتہ ربع صدی میں اتنا کسی جگہ جانا نہیں ہوا جتنا مکہ اور مدینہ کا سفر کیا۔ کرونا کی وباء دنیا کو اپنی لپیٹ میں نہ لیتی تو گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سال سے وہاں حاضری سے محرومی کے دن نہ دیکھنے پڑتے اور میرے آقائے کریمﷺ ہمیشہ کی طرح اپنے دربار میں یونہی طلب کرتے رہتے۔ میں اللہ سبحانہ تعالی اور اس کے محبوب کی نظر کرم کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے برسہا برس تک رمضان کریم کی مبارک ساعتیں وہاں گزارنے کا موقع عطا کیا۔ سن 2018 کے وہ یادگار لمحات آج بھی شہر نبویﷺ میں بیتے دنوں کی حسین یادوں کو تر و تازہ کردیتے ہیں جب یہی ماہ ربیع الاول تھا اور مجھے عمرے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ عمرے کی نیت سے سر زمین حجاز پر قدم رکھے تو ہمیشہ کی طرح دل کی وہی کیفیت تھی جو ہر بار یہاں آنے پر ہوتی تھی۔ مجھے سن 1998ءسے مسلسل یہاں کا بلاوا آتا رہا ہے البتہ پچھلے سال کرونا کے باعث یہ سلسلہ معطل ہوگیا لیکن اب الحمد لللہ صورتحال میں جو بہتری آرہی ہے اور دونوں حرمین کی رونقیں پھر سے بحال ہورہی ہیں تو رب کعبہ سے امید ہے کہ وہ ہم جیسے خطا کاروں کے لئے بھی اپنے گھر کے دروازے پھر سے کھول دے گا۔ آج یہاں چند سطور قلمبند کرنے کا مقصد محض بارہ ربیع الاول کے حوالے سے اپنے عمرے اور مدینہ کی زیارت کا احوال بیان کرنا ہے۔غلامان مصطفیٰ ﷺکے لئے در رسول کی حاضری سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوگی۔ بارگاہ میں حاضری کی نوید ملتے ہی آپ کے دل کے دنیا زیروزبر ہو جاتی ہے۔ اشکوں کا ایک سیل رواں جاری ہو جاتا ہے اور گویا آپ کے دل کی کیفیت عظیم شاعر اقبال عظیم کے ان اشعار کے عین مطابق ہوجاتی ہے

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ جبین افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ

مکہ مکرمہ عمرے کی ادائیگی کے بعد جب وہاں سے مدینہ کے سفر کا ارداہ کیا تو در رسولﷺ کے روحانی تصور سے ہی دل شاداں تھا۔ مدینے پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ ہوٹل میں چیک ان کیا،سامان رکھا اور جلدی سے عصر کی نماز جماعت کے مسجد نبوی میں ادا کی۔ ہماری رہائش ہمیشہ باب النساءکے گیٹ نمبر 25کے سامنے واقع ہوٹل بہاوالدین میں ہوتی رہی ہے۔ نماز کے بعد مدینہ میں اپنے دیرینہ دوست عرفان بھائی اور فرقان بھائی کے ہوٹل کا رخ کیا کیونکہ مکہ سے مدینہ کے ساڑھے چار سو کلو میٹر کے طویل سفر کے دوران دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا اور بھوک بھی شدت سے لگ رہی تھی۔ مدینہ آمد کے وقت ہمارا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ مدینہ میں داخل ہونے کے بعد پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ اولین وقت میں روضہ اطہر پر حاضری دی جائے اس کے بعد پھرہم اپنے عزیز اور مہربان بھائی عرفان کے ہوٹل کا رخ کرتے ہیں۔ عرفان بھائی کا ہوٹل ہمارے اقامتی ہوٹل بہاوالدین سے کچھ ہی فاصلے پر سپٹکو بس اسٹاپ کے قریب واقع ہے ۔ جس وقت ہم مدینہ پہنچے وہ ایسا وقت تھا جب روضہ مبارک پرحاضری ممکن نہ تھی کیونکہ حاضری کے لئے اوقات مقرر ہیں چنانچہ سوچا کہ کھانا کھا لیا جائے عرفان بھائی کے ہوٹل پہنچے تو ہمیشہ کی طرح ان کی جانب سے بڑے خلوص کے ساتھ پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔عرفان بھائی کے ہوٹل کے حوالے سے یہ ذکر کرتی چلوں کہ رمضان میں ہماری افطار تو روزانہ روضہ مبارک ﷺکے صحن میں ہوتی ہے لیکن عشاءکی نماز اور تراویح کے بعد رات کا کھانا ہمیشہ عرفان بھائی کے ہوٹل میں ہی ہوتا ہے۔ بہرحال کھانے کے بعد حاضری کی تیاری کی اور خوشبویات سے خود کومعطر کرکے ہم دونوں میاں بیوی باب السلام کی جانب روانہ ہوئے اس وقت چونکہ عورتوں کی حاضری کا وقت نہیں ہوا تھا سوچا کہ سبز گنبد کے سامنے کھڑے ہوکر ہی آقا کے حضور آنسوﺅں اور سلام کا نذرانہ پیش کردیا جائے لہذا ایسا ہی کیالیکن دل پھر بھی جالیوں کے قریب حاضری کے لئے بے چین تھا ۔آقا اپنے غلاموں پر کب مہربانی نہیں کرتے؟ سو دل کی یہ مراد بھی کچھ ہی دیر بعد بر آئی اور اسی رات بعد نماز عشاءوہ مبارک گھڑی بھی آن پہنچی جب جناب رسالت مآب ﷺکے روضہ مبارک پر حاضری دینے کا موقع عطا ہوا۔یہ کوئی پہلی بار حاضری نہیں تھی لیکن اس کے باوجود دل کی عجیب کیفیت تھی، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور دل بار بار یہ صدا دے رہا تھا کہ "میں اس کرم کے کہاں تھی قابل، حضور کی بندہ پروری ہے”گیارہ ربیع الاول کی رات تقریبا گیارہ بجے حاضری کا شرف حاصل ہوا اور وہاں ہزاروں خواتین کی موجودگی میں جی بھر کر حاضری دی۔حاضری کے بھی اپنے آداب اور پروٹوکول ہیں جن کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ کم علمی یا پھر بے احتیاطی کے باعث یہ اہم چیز فراموش کربیٹھتے ہیں۔روضہ مبارک وہ عظیم اور مقدس ترین مقام ہے جس کی تقدیس کے حوالے سے کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور سورہ الہجرات میں خود خالق کائنات نے ایمان والوں کو نبی مکرم کے احترام کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم دیا ہے ۔اللہ تبارک تعالی کا یہ حکم تمام زمانوں کے لوگوں کے لئے ہے کہ نبی کریم ﷺکے سامنے ہمیشہ اپنی آواز کو پست رکھو اور کسی معاملے میں ان سے پیش قدمی نہ کرو۔روضہ رسو ل ﷺکے آداب میں اولین شرط ہی یہ ہے کہ وہاں آوازوں کو پست رکھا جائے ۔ میں نے سوچا یاالہی یہ کیا ماجرا ہے کہ جب بیت اللہ شریف میں حاضر ہوتے ہیں تووہاں دیوانوں کی طرح باآواز بلند پکارتے ہیں کہ” اے اللہ میں حاضر ہوں” جب کہ تیرے محبوب کے در پر حاضری کے لئے لازم ہے کہ وہاں اپنی آواز کو دھیما رکھا جائے ذہن میں خیال آیا کہ اللہ تو رب کریم ہے وہ تو ہم سب کو پالنے والا اور ستر ماﺅں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے لیکن اسے یہ بات ہرگز گوارہ نہیں کہ کوئی اس کے محبوب کی شان میں کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب ہو۔اس لئے اس نے یہ انتباہ بھی جاری کردیا کہ نبیﷺ کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر تک نہ ہو۔ اس لئے یہ ادب کا اعلیٰ و ارفع مقام ہے جس کی حرمت کا خیال جن و انس کے علاوہ ملائیکہ بھی کرتے ہیں۔ ادب کا پہلا قرینہ یہی ہے کہ یہاں جس حد تک ممکن ہو خاموشی اختیار کی جائے اور زیادہ سے زیادہ درود پاک کا ورد کیا جائے۔ایک اہل معرفت نے کیا خوب کہا ہے کہ مدینہ منورہ تو قبلہ محبت ہے ”مدینہ“ نام لیجئے تو دل محبت سے بھر جاتا ہے‘ زبان محبت کی مٹھا س سے تر ہو جاتی ہے۔ مدینہ منورہ میں گوکہ بارہ ربیع الاول پاکستان اور ہندوستان کی طرح نہیں منائی جاتی وہاں نہ کوئی جلوس نکلتے ہیں نہ کوئی چراغاں کیا جاتا ہے مگر سعودی عرب کے مختلف شہروں میں مقیم پاکستانی مدینہ منورہ پہنچ کر روضہ رسولﷺ پر حاضری دیتے ہیں وہاں موجود لوگوں میں مٹھائی اور کھجوریں تقسیم کرتے ہیں اور جن لوگوں کو اللہ نے توفیق اور وسائل دیئے ہیں وہ لوگوں کی تواضع انواح و اقسام کے کھانے سے بھی کرتے ہیں۔ہم لوگوں نے بھی اس دن کی مناسبت سے جو ممکن ہوسکا لوگوں میں کچھ تبرکات تقسیم کئے دن بھر روضہ رسولﷺ کی رونقیں دیکھ کر عجیب طمانیت محسوس ہوتی تھی۔ ہرطرف لوگوں کی چہل پہل تھی اور مسجد نبوی ﷺکے وسیع و عریض دلانوں میں کہیں لوگ بیٹھے سستا رہے تھے اور کہیں معصوم بچے بھاگتے دوڑتے پھر رہے تھے۔ عصر کی بعد ہم نے سوچا کہ شام کوافطاری کے لئے کھانے پینے کی کچھ اشیاءکا انتظام کرلیا جائے اس مقصد کے لئے ایک مرتبہ پھر عرفان بھائی کے ہوٹل کا رخ کیا اور انکے پاس کھانے کے پیکٹس کا آرڈر دیا کیونکہ روضہ رسولﷺ پر رمضان کے علاوہ بھی روزانہ ایک کثیر تعداد روزے داروں کی ہوتی ہے جو مسجد نبوی ﷺکے صحن میں روزہ افطار کرتی ہے۔ہماری نیت بھی یہی تھی کہ اس کار خیر میں کچھ حقیر سا حصہ ہمارا بھی شامل ہوجائے۔ شام کو افظار سے قبل جب کجھوریں اور افطاری لیکر مسجد نبوی ﷺپہنچے تو حسب معمول جگہ جگہ لوگ ٹولیوں کی شکل میں اپنے اپنے دستر خوان سجائے وہاں افطار کے لئے بیٹھے تھے۔یہ بڑا حسین منظر تھا۔مدینے کی سخت گرمی اور گرم لو کے تھپیڑوں کے باوجود عاشقان رسول ﷺکے چہروں پر کسی قسم کی پریشانی اور بیزاری کا دور دور کوئی شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہ بہت خوبصورت شام تھی جو گنبد خضریٰ کے سائے میں گزر رہی تھی اس وقت دل کی جو کیفیت تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔افطار سے پہلے جب ہم لوگوں میں کھجوریں اور کھانے کی کچھ دوسری اشیاءتقسیم کررہے تھے مسجد نبوی ﷺکے صحن میں ایک عرب خاتون جنہوں نے اپنی بغل میں مصلیٰ دبائے ہوئے تھا تیزی سے ہماری جانب بڑھیں اور انہوں نے بڑی اپنائیت سے کجھوریں لینے کے بعد کہا کہ شکراً انا صائم یعنی آپ کا بہت شکریہ میں روزہ دارہوں۔ افطار کا وقت ہم نے بھی روزہ داروں کے ساتھ مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں گزارا اور پھر مغرب کی نماز وہیں ادا کی ۔ رات کو عشاءکے بعد ہمارا ٹھکانہ ایک مرتبہ پھر گنبد خضریٰ کے سامنے تھا جہاں ںرات گئے تک درود وسلام کا نذار نہ پیش کرتے رہے اور اللہ کے محبوب ﷺ سے ان کی شفاعت اور نظر کرم کی التجا کرتے رہے۔گو کہ مدینے کا سفر اور وہاں قیام کا سلسلہ ابھی تمام نہیں ہوا لیکن آج کے دن کی مناسبت سے اتنی ہی یاداشتیں قلم بند کر نا ضروری سمجھا۔انشاءاللہ زندگی رہی تو پھر کسی وقت وہاں کا مزید ذکر ضرور رہے گا۔

Share            News         Social       Media