31/05/2023

ہم سے رابطہ کریں

کراچی : سندھ میں وزیر صحت آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل ہیں یا ایم کیوایم کے سابق رہنما ڈاکٹر صغیر احمد وزیر صحت سندھ ہیں یا پھر دوہزار اٹھارہ کا الیکشن ہارنے والے پیپلزپارٹی کے جام مہتاب ڈھر وزیر صحت سندھ ہیں محکمہ صحت کے اخباری اشتہارات نے سرکاری نظام کی خرابی، افسران کی لاپرواہی کو آشکار کردیامحکمہ صحت کےکئی سالوں سےڈیوٹی سے غیر حاضر اور ملک چھوڑ کر جانے والے سینکڑوں ڈاکٹرز،لیڈی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو ملازمتوں سے برطرف نہیں کیاگیامحکمہ صحت کا غیر حاضر عملہ کئی سالوں سے ڈیوٹیوں پر موجود نہیں اور ان اداروں میں متبادل ڈاکٹرز وپیرامیڈیکل اسٹاف کی تعنیاتی نہ ہونے سے مریضوں کو مشکلات اور ادارے کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے محکمہ صحت سندھ نے 7سالوں سے ایسے ملازمین کا حتمی فیصلہ نہیں کیا اور ان کے خلاف انضباطی کاروائی کے کیسز کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں چند روز قبل محکمہ صحت کی جانب سے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر،نیشنل انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور دیگر اسپتالوں کے ڈاکٹرز،میڈیکل آفیسرز،چارج نرس اور دیگر اسٹاف کے خلاف اخبارات میں شوکاز نوٹس جاری کیے محکمہ صحت سندھ کے ان اشتہارات کے مطابق سال دوہزار بارہ ،دوہزار تیر،دوہزار پندرہ اور بعد کے سالوں محکمہ صحت کے ملازمین کے خلاف محکمہ جاتی کاروائی کا آغاز کیاگیا اور کئی سال گزرنے کے باوجود ان ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ملازمتوں سے فارغ نہیں کیاگیا اخباری اشتہارات کے مطابق کچھ شوکاز نوٹس پر مجاز افسر کے طور پر ایم کیوایم کے سابق رہنماڈاکٹر صغیر احمد جوپیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں وزیر صحت تھے ان کے نام بطور وزیر صحت اشتہار میں شائع کیے گئےجبکہ ملازمت سے برطرفی کے لئے کچھ دیگر اشتہارات میں جام مہتاب ڈھر کا نام شامل ہے یاد رہے کہ ڈاکٹر صغیر احمد دوہزار تیرہ تک وزیر صحت تھے جبکہ پیپلزپارٹی کے جام مہتاب ڈھر دوہزار اٹھارہ میں الیکشن ہارنے کے بعد اب سینیٹ کے رکن ہیں محکمہ صحت کے کچھ اشتہارات میں ڈاکٹر عثمان چاچڑ،اقبال میمن ،آفتاب کھتری کے نام بھی بطور سیکریٹری محکمہ صحت موجود ہیں جبکہ یہ افراد کئی کئی سال قبل ان ذمہ داریوں پر فائز تھے اس حوالے سے سینئر بیوروکریٹس کے مطابق محکمہ جاتی قواعد اور سروس رولز میں اس قدر پیچیدگیاں ہیں اور نظام کی خرابی ہے کہ کئی کئی سال تک افسران وملازمین کے خلاف مروجہ قواعد کےتحت کیس چلتے رہتے ہیں اور سالوں تک ان پر فیصلہ نہیں ہوتا جبکہ کچھ کیسز میں متعلقہ محکمے کے حکام کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی بھی سروس رولز کی خلاف ورزی پر کیسز پر فیصلہ نہیں ہوپاتا سندھ کے دیگر محکموں میں بھی ایسے ہزاروں ملازمین و افسران ہیں جو ڈیوٹیوں سے غائب ہیں کچھ بیرون ملک ملازمت حاصل کرچکے مگر ان کے نام تاحال اس محکمے کے ملازمین کی تعداد میں شامل ہیں جس سے بیک وقت دو نقصانات ہورہے ہیں ایک تو ایسے افراد کی جگہ پر نئی بھرتی یا تقرری نہیں ہوتی جبکہ سرکاری ادارے کی کارکردگی مطلوبہ عملہ نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ سروس رولز اور دیگر مروجہ قواعد کئی عشروں پرانے ہیں ان کو عصر حاضر کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے.

Share            News         Social       Media