ڈاکٹر فرحت ناز رحمٰن
ہمارے سفر کا آغاز اسلام آباد سے ہوا اور ہم ائرپورٹ سے سیدھے ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوگئےجہاں تقریباً آدھا دن ہم نے مختلف مقامات کی سیروسیاحت میں گزارا وہاں ہم نے جو مقامات دیکھے ان میں ٹیکسیلا میوزم،خان پور ڈیم،شملہ ہل، الیاسی مسجد، ہرنائی لیک شامل ہیں۔ پھر اپنی گائیڈ سندس تنویر کو ان کے گھر سے لے کر اچھ اڑیاں کے مقام پر دوپہر کا کھانا خاصی تاخیر سے شام ڈھلے کھایا جس میں دال کے ساتھ ایک مقامی کھاناروش بھی تھا یہ ڈش نمکین گوشت پر مشتمل ہوتی ہے ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ہزارہ ہائی وے پر رواں دواں تھے اور چھتر لین کے مقام پر تین کلومیٹر طویل سرنگ کا سفر بھی طے کیا جو بڑا دلچسپ اور حیرت انگیز تجربہ تھا قراقرم ہائی وے سے ہوتے ہوئے ہم رات کو بشام پہنچ گئے۔ بشام شانگلہ ڈسٹرکٹ میں واقع ہل اسٹیشن ہے۔ بشام کے راستے میں ایک سنگ میل تھا جو قدیمی گذرگاہ ریشم کے نام سے موسوم ہے جس کو مشترکہ طور پر پاکستان چائنا نے 1978 میں تعمیر کیا تھا اس کی تعمیر کا آغاز 1958 میں ہوا تھا۔ اس سنگ میل پر ان نوجوان مزدوروں کی خدمت میں نذرانہء عقیدت کندہ ہے جنہوں نے اس کی تعمیر میں اپنی جانیں قربان کر کے اس شاہراہ قراقرم کی تعمیر کو ممکن بنایا۔بشام میں ہمیں صرف ایک رات ہی گزارنی تھی لہذا صبح پر تکلف ناشتے کے بعد کچھ ہی تصاویر لی جا سکیں وہ بھی ہوٹل کے سامنے ایک چھوٹے سے پل کی۔اگلا سفر کافی طویل اور دقت طلب تھا کیونکہ کوہستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے علاوہ کچھ میدانی علاقے بھی ہیں جہاں جون جولائی میں قیامت خیز گرمی پڑتی ہے علاوہ ازیں راستہ بھی خاصہ دشوار گزار اور خستہ حال تھاجس کی وجہ سے سفر میں ذیادہ وقت لگ گیا۔بشام سے پٹن اور پھر داسو تک کا راستہ پھر بھی قدرےبہتر تھا راستے میں آنے والی خوبصورت وادیوں کے ساتھ آبشاروں کا حسین منظر آنکھوں کو راحت بخش رہا تھا۔
داسو ڈیم سے تقریباً 45 کلومیٹر تک سڑک انتہائی خستہ حال تھی دیامیر بھاشا ڈیم سے آگے سمرنالہ تک راستہ کو بھی قدرے بہتر کہا جاسکتا ہے اس سے آگے سلائڈنگ ایریا تھا جہاں سے ہم تتہ پانی سے ہوتے ہوئےچلاس پہنچ گئے ۔ یہاں ہمارا استقبال گرم لو کے تھپیڑوں نے کیا اور اوپر سے ستم یہ کے راستہ بھی نہایت خستہ حال تھا اور گاڑی کا ائرکنڈیشنر بھی نہیں چلا سکتے تھے کیونکہ ہم اوپر چڑھائی کی جانب تھے۔ رائیکوٹ سے ہوتے ہوئے ہم گنی کے مقام پر رک گئے اور دوپہر کا کھانا کھا کر ظہر کی نماز ادا کی گو کہ اسوقت تین بج رہے تھے ہم نے ذیادہ قیام نہیں کیا اور سفر جاری رکھا۔یہ تکلیف دہ روٹ ہم نے جان بوجھ کر یا غلطی سے نہیں بلکہ بحالت مجبوری لیا تھاکیونکہ بابوسر ٹاپ ان دنوں گلیشئرز کی وجہ سے بلاک تھا اور سیاحوں کی آمدورفت کے لئے اسے بند کر دیا گیا تھا۔ (جاری ہے)














