یہ بحث اب خاصی پرانی ہو چکی ہے کہ تاریخ اور تاریخی ناول میں کیا فرق ہے؟
تاریخ کسی بھی عہد کے واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ صحیح تاریخ کی ایک خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس میں سیاسی واقعات کے ساتھ ساتھ اس دور کے سماجی شعور اور رجحانات کا احاطہ کیا جائے، جبکہ تاریخی ناول میں مصنّف تاریخ کو ایک قصے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس میں مصنّف کا ذہن رسا بھی شامل ہوتا ہے اور اس کے جذبات بھی۔ تاریخ ایک خشک انداز میں تحریر کی جاتی ہے جبکہ تاریخی ناول میں عبارت کی دلآویزی اور بیان کی دل کشی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی سبب سے ایک عام قاری کے لیے تاریخ کی بہ نسبت تاریخی ناول پڑھنا زیادہ دلچسپ عمل ہوتا ہے۔
اُردو میں تاریخی ناول نگاری کا آغاز عبدالحلیم شررؔ سے ہوا۔ شررؔ نے ابتدا میں سلیس تاریخ نگاری کی مگر جب انھیں احساس ہوا کہ ان کا قاری اس تاریخ میں ان واقعات کا جواز بھی ڈھونڈنا چاہتا ہے تو وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ شرر کا اسلوب اُردو میں نیا تھا اس لیے شروع شروع میں ان پر تنقید بھی ہوئی، مگر جلد ہی ان کا انداز اُردو داں طبقے میں مقبول ہوگیا۔ شرر کی غیر معمولی کامیابی نے دوسرے ناول نگاروں کو بھی تاریخی ناول لکھنے کی طرف متوجہ کیا، جن میں محمد علی طبیب، سلطان حیدر جوش، علی عباس حسینی، مرزا مظفر علی بیگ، عباس حسین ہوش اور علامہ راشد الخیری کے نام سرِفہرست ہیں۔
ان ادیبوں کے فوراً بعد جس ناول نگار نے شہرت حاصل کی اس کا نام صادق حسین صدیقی سردھنوی تھا۔ انھوں نے تاریخِ اسلام کے ہر واقعے کو اپنے ناول کا موضوع بنایا۔ ان کے لکھے ہوئے ناولوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ایک اہم واقعہ تھا، اُردو کے بہت سے ادیب اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے، چنانچہ انھوں نے اس واقعے سے تعلق رکھنے والے بہت سے موضوعات کو اپنے ناولوں کا محور بنایا۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ کے بہت سے واقعات بھی ناول نگاری کا موضوع بنتے چلے گئے اور ان کی مقبولیت کے باعث بہت سے ناول نگار منظرِعام پر آئے، جن میں آرزو چودھری، احسان بی اے، الطاف پرواز،الیاس سیتاپوری، عشرت رحمانی، مائل ملیح آبادی، نسیم حجازی، ماہر القادری، خواجہ محمد شفیع دہلوی، احسن فاروقی ، ایم اسلم، اسلم راہی، خان محبوب طرزی، رئیس احمد جعفری، عنایت اللہ، قمر تسکین، وحشی محمود آبادی اور احمد شجاع پاشا شامل تھے۔ انھی ناول نگاروں میں ایک اہم نام قیسی رامپوری کا تھا۔
قیسی رامپوری 20 جون 1908ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ناول نگاری کا آغاز 1927ء کے لگ بھگ ہوا۔ انھوں نے لاتعداد رومانی اور معاشرتی ناول تحریر کیے، جن میں طلسمی فوارہ، برہنہ، چوراہا، نکہت، شیطان، آخری فیصلہ، خطا، دل کی آواز، تسنیم، دھوپ، سزا، دو شیشے، ضیافت، گرد پوش، اپاہج، رونق اور رضوان شامل تھے۔ طلسمی فوارہ کا ایک نسخہ رضا لائبریری رامپور میں آج بھی محفوظ ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعدانھوں نے چند تاریخی ناول بھی تحریر کیے جن میں ٹیپو شہید، چاند بی بی، خون ،بے آبرو، فردوس، سلمیٰ، دوسری جنگ عظیم کے ہولناک واقعات اور زیرِنظر ناول رضیہ سلطانہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’اُردو میں تاریخی ناول ‘‘میں قیسی رامپوری کے بارے میں لکھا ہے کہ …
’’ان کے ناولوں میں تاریخ کم اور افسانہ زیادہ ہے، انھوں نے تاریخی مواد کو سلیقے سے استعمال نہیں کیا ہے، تاہم ان کے ناولوں کے پلاٹ اپنی بوقلمونی کے باعث زیادہ دلچسپ اور جاذبِ نظر ہیں۔ ان کے ہر ناول کا پلاٹ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ناول کے واقعات مربوط ہوتے ہیں۔ ہر واقعہ دوسرے واقعے سے باہم پیوست ہوتا ہے، لیکن تاریخی ناولوں کے پلاٹ اس قدر منظم اور مربوط نہیں ہوتے۔ ناول کے تخیلی واقعات تاریخی واقعات سے علیحدہ بیان ہوتے ہیں۔ اس طرح پلاٹ دہرا ہوجاتا ہے اور یہ کوئی عیب نہیں۔‘‘
رضیہ سلطانہ کے بارے میں خود قیسی رامپوری کی اپنی رائے یہ تھی کہ…
’’اس ناول کو آپ عام تاریخی ناولوں کی روش سے مختلف پائیں گے اور یہی اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ میں دراصل اس ناول کو تاریخی ناول نہیں کہتا ورنہ اس سے پہلے کے (ناول) چاند بی بی کے بارے میں میرا یہ دعویٰ ہے کہ میرے خیال میں تاریخی ناول لکھنے سے بہتر تو یہی ہے کہ انسان تاریخ ہی لکھے کیونکہ تاریخ اپنی جگہ ایک مکمل صنف ہے جس نے ناول کا رنگ قبول کرنے کا خراج کم پایا ہے۔ ویسے ہر موضوع کو آپ ناول کے قالب میں ڈھالنے کو آزاد ہیں۔‘‘
ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ نے ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے بارے میںلکھا ہے کہ …
’’رضیہ سلطانہ قیسی رامپوری کا ایک ایسا ناول ہے جس میں ہندوستان کی تاریخ کے پس منظر میں واقعات ابھرتے ہیں، واقعات کا آغاز شمس الدین التمش کی مشکلات کے ذکر سے کیا ہے۔ رضیہ سلطانہ کا کردار آہستہ آہستہ ابھرتا ہے۔ اس کا بھائی رکن الدین نااہل ہے، رضیہ کا اپنی فوج کے ایک سالار التونیہ سے عشق کا واقعہ ذرا پھیلا کر لکھا گیا ہے، ضمنی واقعے کے طور پر احتشام اور عادلہ کے عشق کی داستان سنائی گئی ہے۔ پورے ناول میں تاریخی عہد کے طور پر التمش کی حکومت کے واقعات زیادہ ہیں اور رضیہ سلطانہ کی حکومت و اقتدار کا ذکر صرف آخری چند صفحات میں آیا ہے۔‘‘
’’رضیہ سلطانہ‘‘ ایک طویل عرصے سے ناپید تھا۔ خود قیسی رامپوری کے انتقال (10فروری 1974ء) کو بھی نصف صدی گزرنے والی ہے۔ قیسی رامپوری کے قارئین ان کے ناولوں کو شدّت سے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ میں بک کارنر جہلم کے امر شاہد اور گگن شاہد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو ایک طویل عرصے کے بعد ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کو قارئین کی خدمت میں دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے ان کی یہ کاوش ان کے ادارے کی دیگر مطبوعات کی طرح پسند کی جائے گی اور قیسی رامپوری کے دیگر ناولوں کی اشاعت کاحرفِ آغاز ثابت ہو گی۔
عقیل عباس جعفری
کراچی
یکم دسمبر 2021ء