ڈاکٹر فرحت ناز رحمٰن
دنیا کی بے لوث محبت کو اگر نام دیا جائے تو وہ ایک لفظ میں سمٹ کر آ جاتی ہے "ماں”۔ماں کی ممتا ایک ایسا احساس ہے جو تپتے صحرا میں ٹھنڈی چھاؤں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ممتا کئی روپ اور کئی رنگ لیے ہر معاشرے میں، ہر دورمیں اورہر صدی میں چھائی رہی۔ یہ وہ لازوال جذبہ ہے جس کو شاعروں ، مفکروں اور ادیبوں نے کئی نام دئے۔ الغرض اس کائنات کے خالق نے بھی اپنی مخلوق سے محبت کی مثال دیتے ہوئے ماں کی ممتا کو ہی منتخب کیا ہے۔ ایک گھرانےمیں ماں کی کلیدی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ مختلف سماج اور ثقافت میں ماں کی عزت، محبت اور مرتبےکے لیے ہزار ہا قسم کی حکایات، جملے اور تصورات پائے جاتے ہیں اور کئی لازوال داستانیں ماں کی اہمیت کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں ۔ ماں سے منسوب کئی کہاوتیں ، محاورے، گیت اور لوریاں ہیں جو کہ ہر زبان ہیں پائی جاتی ہیں اور ثقافت کا حصہ ہیں۔ الغرض بچے کی پرورش، خاندان کی دیکھ بھال، رشتوں کا نبھانا اور قربانیوں کی لازوال مثالیں لیے "ماں ” ہماری زندگی کا وہ اہم پہلو ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے باسی جہاں اپنی روایتوں کو نہ صرف زندہ رکھےہوئے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں اس کی اہمیت کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اُجاگر کرتے رہتے ہیں۔صوبہء پنجاب کے ایک بڑےحصے میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی آبادی ہے۔ سرائیکی زبان سندھی اور پنجابی زبان کا خوبصورت ملاپ ہے۔ تمام دوسری ثقافتوں کی طرح سرائیکی زبان میں بھی روایتی لوریاں ، محاورے، کہاوتیں صدیوں سے موجود ہیں۔لوری ایک ایسا گیت ہے جو کہ پاکستانی زبانوں کے ہر لوک ادب میں موجود ہے، بعض زبانوں میں تو اس کا نام تک بھی نہیں بدلتا، غرض لوری ایک ایسا اجتماعی گیت ہےجو کہ پاکستانی معاشرے کی اپنی تخلیق اور یہاں کے باسیوں کی خاص طور پر ماؤں کا وہ گیت ہے جو کہ وہ اپنے بچوں کو سلانے، بہلانےاور کھلانے کے لیے گاتی یا گنگناتی ہیں، اس گیت میں ماں کی ممتا کے ایسے جذبات کی خوشبو ہوتی ہے جو کہ سننے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ لوری ایک ایسا گیت ہے جس کے ذریعے ماں اپنے بچے کو جہاں اپنےماضی سے روشناس کرواتی ہے وہاں اسے اچھے مستقبل کی دعائیں بھی دیتی ہے۔ ان گیتوں میں ہمارے مذہبی عقائد بھی نظر آتے ہیں۔ہر علاقائی زبان کی لوری اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے منظر رکھتی ہے۔ سرائیکی ادب میں بھی اس صنف سخن میں کچھ نمونے ملتے ہیں مگر کم ہونے کی ایک وجہ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے لکھی ہے کہ ” ملتانی علاقے کی وسعت کے باوجود صرف دو لوریاں دستیاب ہو سکی ہیں جس کی وجہ وہ اقتصادی زبوں حالی ہےجو ماؤں کو بھی کسب معاش میں مصروف رکھتی ہیں اور انہیں اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ اپنے لاڈلوں کے پنگھوڑےجھلا سکیں”۔ دو میں سے ایک لوری بمعہ ترجمے قارئین کے لیے۔
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی ھاں میں رتی دےداوے
نیندر خوشی دی تیڈی اکھیاں کوں آوے
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی
لولی ڈیندی میں ڈے نہ واری
اکھیں تےرکھ دی تیڈی جند پیاری
لولی ڈیندی میں مکھناں دے پیڑے
رنگ منجھیس تیڈے مامے دے ویڑھے
لولی ڈیندی میں ونجاں گھولی….
ترجمہ:
پیارے میں تم کو لوری دیتے ہوئے تم پر قربان جاؤں
لوری دیتی رہوں دیتی رہوں کبھی نہ تھکوں
میں تمہیں لوری دے رہی ہوں
تاکہ تمہاری آنکھوں میں خوشی کی نیند آ جائے
لوری دیتے ہوئے میں تم پر قربان ہو جاؤں
تمہاری پیاری جان کو اپنی آنکھوں پر رکھوں
لوری میں اپنے مکھن کے پیڑے کو دوں گی
بھینسوں کی آواز تیرے ماموں کے ڈیرے سے آ رہی ہے
لوری دیتے ہوئے میں تم پر قربان جاؤں