کراچی :کے ایم سی میں ٹیکس وصولی کے معاملے پر مرتضیٰ وہاب نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے عدالت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دن دیکھا اور نہ رات دیکھا بس اس شہر کے لیے کام کیا، جس بلدیہ عظمی کے لیے کہا گیا اس کے پاس اختیارات نہیں اسی نے کام کیا لیکن میری پذیرائی نہیں کی گئی۔مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ مایوسی کی وجہ سے کیا، انسان سال بھر نیک نیتی کے ساتھ محنت کرتا ہے، شہر کا بھلا کرنے کا سوچتا ہے، پھر لوگ سیاست کی نظر کردیتے ہیں۔سندھ حکومت کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کے ایم سی ٹیکس کے پیسے میری جیب میں نہیں، کے ایم سی کے اکاو¿نٹس میں آتے، کے الیکٹرک کے پاس رقم آنے کا چیک اینڈ بیلنس بہت اچھا ہے، 100 روپے بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتے اسی لیے یہ ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ پرائیوٹ کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کو دیا اور انہیں بہت مشکل سے راضی کیاتھا۔انہوں نے کہا کہ میں کے ایم سی کی 16 کروڑ روپے کی آمدنی بڑھا کر تین ارب سے زائد کررہا تھا لیکن کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اس شہر کے لوگوں کے پاس پیسے ہوں، اس شہر میں ترقیاتی کام ہو۔
انہوں نے کہا کہ میں شفاف طریقے سے ٹیکس جمع کرنا چاہتا تھا، اخلاقی طور پر نہیں سمجھتا کہ مجھے مزید کام کرنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ شہر میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے الیکشن بھی نہیں لڑا، اگر میں الیکشن لڑتا، بارشوں میں اداروں کی کوآرڈینیشن خراب ہوتی، اچھے فیصلے سیاست کی نظر ہوگئے جس کی وجہ سے استعفیٰ دے رہا ہوں، میں نے لوگوں کو امید دی، ماضی میں بلدیہ عظمیٰ سے لوگ نالاں اور مایوس ہوگئے تھے۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ماضی کے میئر نے کہہ دیا تھا کہ میرے پاس اختیارات نہیں ہیں، مجھ سے عوام رابطہ کرتے تھے کیونکہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ کام ہو رہاہے۔مرتضی وہاب نے کہا کہ میونسپل یوٹیلٹی کنزروینسی ٹیکس 5جون 2008کو لگااس وقت کراچی کے ناظم مصطفی کمال تھے۔اس وقت سے ایم یو سی ٹی ٹیکس لیاجارہاہے ۔وسیم اختر کے چار سالہ دور میں میونسپل ٹیکس بیس کروڑ روپے اکٹھاہوتاتھا۔مشیر قانون سندھ نے کہا کہ میں نے نجی کمپنی کے بجائے پبلک لمیٹیڈ کمپنی کے ذریعے ٹیکس جمع کرنےکا فیصلہ کیا تھا تاکہ ہرماہ کے ایم سی کو ٹیکس مل سکے ۔ایک سال کی جدوجہد کے بعد کےایم سی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے جارہی تھی۔انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی مفاد ہوتا تو پرانا نظام چلنے دیتا مگرکچھ لوگوں کو سیاسی عناد پر یہ فیصلہ قبول نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ مصطفی کمال ،وسیم۔اختر دور میں یہ ٹیکس 200سے5ہزار روپے تھا مگرمیں نے کراچی والوں پر یہ ٹیکس کم کرکے50روپے کیا ان کا کہناتھاکہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ کراچی کی ترقی ہو۔مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ پی ٹی وی ٹیکس کے الیکٹرک بل سے وصول کیا جاتا ہے کبھی جماعت اسلامی نے اس پر اعتراض کیا۔مشیر قانون سندھ نے کہا کہ عدالت میں کہاگیاکہ ٹیکس ٹھیک ہے اور یہ بھی کہاگیاکہ ٹیکس لگائیں مگر کے الیکٹرک کے ذریعے کیوں لیاجائے۔مشیر قانون نے سوال کیا کہ کیا اب ہرفیصلہ کچرا پھینکنے والے کریں گے ؟انہوں نے کہا کہ : یہ نہیں ہوسکتاکہ محنت کا پھل آنے پر کام سے روک دیاجائے ۔یہ میونسپل ٹیکس کراچی اور عوام کی بہتری کے لئے تھا۔انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کسی کی جیب میں جانا اچھا ہے یاپھرکے ایم سی کےااکاونٹ میں آنا اچھاہے؟انہوں نے کہا کہ میں اپنا استعفیٰ وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کررہا ہوں۔انہوں نے شکوہ کیا کہ پبلک سروس کرنا اس شہر ملک میں آسان نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں قیادت کے فیصلوں اور پارٹی فیصلوں کا پابندہوں تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ اب سب کو اندازہ ہوگیا ہوگاکہ کام کروگے تو سزا ملے گی مجھے شہر کی خدمت کی روک دیاگیا۔