29/05/2023

ہم سے رابطہ کریں

افشاں مراد

ہال کھچا کھچ طلباء اور طالبات سے بھرا ہوا تھا،آگے کی نشستوں میں اساتذہ اکرام تشریف فرما تھے،ہم جب وہان پہنچے تو کوئی نشست خالی نہیں تھی ہمارے لئے جگہ بنائی گئی،ہمارے بعد بھی بچے اتے رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ جگہ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
یہ کراچی یونیورسٹی کا آرٹس آڈیٹوریم تھا،جہاں ہمارے پیارے عزیز از جان ابو کے لئے ان کے شعبہ تاریخ اسلام کی طرف سے تعزیتی سیمینار رکھا گیا تھا۔
اسٹیج پر پروفیسر ڈاکٹر عبدالشہید نعمانی،ڈاکٹر سید عزیز الرحمن،ڈاکٹر سہیل برکاتی،پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی،اساتذہ شعبہ تاریخ اسلام،ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی،پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس،ڈاکٹر عارف خان صاحب موجود تھے ۔پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا ،ابو کی شخصیت پر ان کی کتا بوں پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی تھی۔کچھ اساتذہ جو اپنی مصروفیت یا دوسرے شہروں میں تھے انہوں نے ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے جذبات اور محبت کا اظہار کیا۔ان میں ڈاکٹر محمد سجاد(پنجاب یونیورسٹی) ڈاکٹر عبداللہ (اسلام آ باد) ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ شامل تھیں۔
سب کا کہنا تھا کہ ممتاز سیرت نگار،محقق،مورخ،عالم،استاد الاساتذہ ڈاکٹر نثار احمد نے اپنی پوری زندگی صلے کی تمنا کے بغیر تحقیق و تصنیف میں گزاردی ۔ان کی قابلیت اور علم کے شایان شان ان کو مقام و مرتبہ نہ ان کی جامعہ نے دیا نہ ہی حکومتی حلقوں کی طرف سے ان کو اس طرح ان کے کام کو سراہا گیا،وہ وقت کے انتہائی پابند،با اصول،اور بہترین استاد تھے،38 سال میں کبھی کوئی کلاس نہ چھوڑی ،کبھی کسی کلاس میں لیٹ نہیں ہوئے،کبھی گاؤن کے بغیر کلاس میں نہیں گئے۔صدر شعبہ اور پھر ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ کامرس ہونے کے باوجود کبھی نہ کلاس لینا چھوڑی نہ لیٹ ہوئے نہ اپنے شاگردوں کو لیٹ ہونے دیا۔ان کی ہر تصنیف ایک مستند دستاویز ہے جس پر وہ سالوں کام کرتے تھے،ہر کتاب میں ان کا کام ایسا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا ۔خطبہ حجتہ الوداع وہ کتاب ہے جس میں 1400 سال میں پہلی دفعہ حضور پاک کے خطبے کو یکجا کیا گیا۔یہ کتاب انہوں نے 37 سال میں مکمل کی۔
تمام قابل ترین اساتذہ کا یہ کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ان کے بااصول ہونے اور خوشامد پسند نہ ہونے کی بناء پر سالوں ان کے عہدوں کو روکا گیا۔لیکن انہوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی وہ شہرت کے لئے کام نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے لئے اپنے اللہ اور اس کے رسول کے لئے کام کرتے تھے۔
ان سب اکابرین اور اساتذہ کے درمیان مجھے اور میرے بھائی کو بھی اظہار خیال کی سعادت ملی کہ بحیثیت والد کے ان کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔
یہ عزت اور یہ سعادت ہمیں ہمارے ابو کی بدولت نصیب ہوئی ۔ان کے کاموں بلکہ کارناموں کے طفیل ہم بھی اس قابل ہوئے کہ اس اسٹیج پر جا کر کھڑے ہوں جہاں اتنے ؑعظیم اساتذہ اور علماء کھڑے ہوئے اور ابو سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔
ہم سب ہی اندر سے بہت ڈرے ہوئے اور جذباتی ہورہے تھے ،ابو کے بارے میں بات کرنا جہاں ایک سعادت تھی وہیں ایک ڈر بھی تھا کہ ان کی بنائی ہوئی عزت پر ہمارے کسی لفظ یا جملے سے حرف نہ آجائے۔ہمارے بچے بھی اپنے نانا اور دادا کے لئے اس پروگرام میں شریک ہوئے تھے ،اس پروگرام کےبعد ان کے سر فخر اور غرور سے اٹھے ہوئے تھے اور وہ حیران تھے کہ ہمارے نانا اتنی عظیم شخصیت تھے ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا ،وہ تو ہم سے اتنے پیار اور دوستانہ انداز سے رہتے تھے،آج پتہ چلا کہ ہمارے نانا کتنی بڑی شخصیت تھے۔ابو کی شخصیت پر بات کرنے کے لئے لامحدود وقت چاہیے تھے،بحیثیت والد کے،بحیثیت شوہر کے،بحیثیت نانا اور دادا بھی ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ان کا احاطہ کسی مخصوص وقت میں تو ممکن ہی نہیں تھا۔لیکن بہرحال ایک رسم ہم نے بھی نبھائی،آنسو تھے کہ دل پہ گر رہے تھے لیکن بظاہر اپنے ابو کی بہادر بیٹی اور بیٹے کہ ہم نے بہت حوصلہ کیا،کیونکہ ابو کو بالکل پسند نہیں تھا کہ بات بات پر رونا دھونا کیا جائے۔تو بس ہم نے حوصلہ دکھا دیا۔
ابو کے لئے اس شاندار پروگرام کرنے کا سہرا ان کے عزیز ترین شاگرد اور مودب اور بہترین استاد شعبہ تاریخ اسلام جناب ڈاکٹر محمد سہیل شفیق صاحب کے سر جاتا ہے ،جنہوں نے بہت عقیدت اور محبت سے یہ پروگرام ارینج کیا اور ان کے شعبے کے تمام اساتذہ جنہوں نے اس میں حصہ ڈالا اور وہ طلباء جو اس میں شریک ہوئے ان سب کا بہت شکریہ اللہ ان کو جزائے خیر دے اور ان کی عزت و تکریم میں اضافہ فرمائے آمین۔

ڈاکٹر جہاں آرا لطفی اور افشاں مراد ڈاکٹر نثار احمد کی لائیبریری میں

Share            News         Social       Media