خبربین خصوصی رپورٹ
کراچی :کراچی میں ہر سال ہونے والی بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور ڈیمز میں ذخیرہ کرنے کے لئے محکمہ آبپاشی سندھ نے جامع اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا ہے ملیر ندی سے منسلک علاقوں اور دیگر مقامات پر ڈیمز کی تعمیر کے لئے تھرڈ پارٹی اسٹڈی کرائی جائے گی جو نشاندہی کرے گی کہ کن مقامات پر ڈیمز تعمیر کرکے بارش کے پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اور کاشتکاری کے ساتھ کراچی کے شہریوں کی پینے کے پانی کی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے اس ضمن میں محکمہ آبپاشی سندھ نے محکمہ بلدیات کے اشتراک سے منصوبے کا پی سی ٹو تیار کرلیا ہے جو جلد ہی منظوری کے لئے محکمہ منصوبہ وبندی وترقیات کو بھیجا جائےگا اور منظوری ملتے ہی فزیبلٹی و اسٹڈی کے لئے تھرڈپارٹی سے اظہاردلچسپی طلب کیے جائیں گے ماہرین اور محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ اگر کراچی میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کام کرلیا جائے تو یہ ڈی سلینیشن کے مقابلے میں انتہائی سستا اور سالانہ مینٹیننس و آپریشن پر درکار اربوں روپے کے اخراجات بھی نہیں ہونگے اسٹڈی میں انیس سو ساٹھ سے کراچی میں مختلف مہینوں میں ہونے والی بارشوں کے ٹرینڈ،بارش کے پانی جمع ہونے کے مقامات اور ڈیمز کی تعمیر کے لئے موزوں جگہ کی نشاندہی کی جائے گی ماہرین پر امید ہیں کہ کراچی میں تین سے پانچ ایسے مقامات ہیں جہاں ڈیمز تعمیر کرکے بارش کا پانی ذخیرہ کیاجاسکتا ہے اور 100سے 150ایم جی ڈی تک اضافی پانی کراچی کو فراہم کیاجاسکتا ہے جو خاص طور پر موسم گرما میں پانی کے بحران کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا اس حوالے سے وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے مجوزہ منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں ڈیمز کی تعمیر کے لئے ماضی میں کچھ اسٹڈیز ہوچکی ہیں اور ان میں ڈیمز کی ضرورت و مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم اب موجودہ زمینی حقائق اور جیوگرافک سروے کی بنیاد پر نئی اسٹڈیز کرائی جائیں گی جام خان شورو نے بتایا کہ محکمہ بلدیات اور محکمہ آبپاشی کا مشترکہ اجلاس ہوچکا ہے جسمیں دونوں محکموں کے وزرا اور سیکریٹریز شریک ہوئے تھے جسمیں طے کیاگیا کہ محکمہ آبپاشی کی زیر نگرانی فزبلٹی اسٹڈی کرائی جائے گی اور محکمہ آبپاشی آئندہ چند روز میں پی سی ٹو منظوری کے لئے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات سندھ کو ارسال کردے گا امکان ہے کہ تھرڈ پارٹی اسٹڈی رپورٹ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی تک آجائے گی اور بجٹ میں مجوزی ڈیمز کی تعمیر کی اسکیم شامل کی جاسکتی ہے ماہرین کے مطابق کراچی میں تیزی سے بڑھتے قلت آب کے مسئلے کو جو اب بحرانی صورتحال اختیار کرگیا ہے حل کرنے کے لیے ڈی سلینیشن پلانٹ لگانا انتہائی مہنگا منصوبہ ہوگا ڈی سلینیشن پلانٹ کے زریعے سمندری پانی کو قابل استعمال بنایاجائےگا تاہم پانی کی فی لیٹر قیمت شہری کے لئے ناقابل برداشت ہوگی اور حکومت اس پر سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی ڈی سیلینیشن ایک سورس ضرور ہے مگر ترقیاتی یافتہ ممالک بھی سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے اس طریقے کو چلانے میں مشکلات سے دوچار رہتے ہیں ماہرین کا کہناہے کہ کراچی میں پہلے سے موجود آبی گزرگاہیں جنھیں اسمال ڈیم کا نام دیا گیا ہے وہ پانی اسٹوریج کی صلاحیت نہیں رکھتے.