29/05/2023

ہم سے رابطہ کریں


اسکردو کا دوسرا دن اور پہلی صبح۔۔۔ ہماری گائیڈ نے ناشتے کے بعد ایک خوبصورت  گیسٹ ہاوس میں جو فصلوں کے  بالکل بیچ  میں تھا بکنگ کروا دی جس کی ہم نے خود  بھی خواہش کی تھی کیونکہ ہوٹل میں ایک بناوٹی  ماحول ہوتا ہے جبکہ گیسٹ ہاؤس اور وہ بھی قدرتی نظاروں میں  گھرا ہوا ہو تو سفر کا لطف  ہی دوبالا کر دیتا ہے۔ یہ گیسٹ ہاؤس چار کمروں پر مشتمل تھا جس کے تین کمرے ہم نے بک کروا لئے جبکہ چوتھے کمرے میں ایک فیملی تھی۔ کمروں کے درمیاں ڈائننگ  ہال تھا ۔ یہاں کا ماحول  بہت اچھا اور اسٹاف بہت مستعد   اور ہمہ وقت تعاون کرنے والا تھا اور وہاں ایک طرح سے اپنائیت کا احساس ہورہا تھا یوں لگا کہ جیسے کسی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہیں۔ ہمارے کمرے کی کھڑکی کھیت کی طرف کھلتی تھی صبح کا منظر تو دیدنی تھا کھیتوں میں صبح عورتیں  کام کر رہی تھیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بستہ لٹکائے کھیتوں کی پگڈنڈیوں  سے اچھلتے کودتے اسکول کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ نوجوان گائے اور بکریوں کو ہنکا کر چراگاہ کی طرف  لے جا رہے تھے۔ ہم نے صبح کے ناشتے کے بعد کھیتوں کی طرف چہل قدمی کی اور فطرت کے حسن کو  اپنی آنکھوں میں سمیٹتے رہے۔ہمارا اس دن کا سفر دیوسائی مالا کا تھا۔ چونکہ وہاں بھی سردی اور برف بہت تھی لہٰذا گرم کپڑوں کا اچھی طرح انتظام اور خاص تیاری سے اپنے کیمرے اور دیگر سامان لے کر نکل پڑے۔ دیو سائی ایک بلند ترین پہاڑی میدان ہے جس کو roof of the world بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی بل کھاتی سڑک پر سدپارہ جھیل دعوت نظارہ دے رہی ہے کہتے ہیں کہ سدپارہ جھیل کا اصل نام ستپرہ سر ہےجس کے معنی ہیں سات ندیوں کے پانی کی جھیل لیکن اردو لکھائی سے نابلد لوگوں نے ستپرہ سے سدپارہ بنا دیا۔ واللہ اعلم بالصواب – یہ جھیل سطح سمندر سے آٹھ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر اسکردو شہر سے کچھ دور پر واقع ہے۔ جھیل میٹھے پانی سے لبریز ہے۔ نیلے پانی سے جھلملاتی یہ شفاف جھیل راستے سے گزرنے والوں کو عالم حیرت میں  ڈال کر ساحوں کو کچھ دیر وہیں رک جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جھیل کو اسکردو کی لائف لائن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جھیل بجلی کی پیداوار کا بھی  اہم ذریعہ ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ اسے پریوں کا مسکن بھی کہتے ہیں۔ جھیل کی فطری خوبصورتی اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن نے تو جیسے ہمارے پاؤں ہی جکڑ لئے۔ سحر طاری کرنے والی فطرت کے حسین رنگوں سے مزین یہ جھیل آنکھوں اور روح کو تازگی بخشنے کے علاوہ ایک ماحولیاتی نظام  کی حامل بھی ہے یوں یہ جھیل مختلف چرند و پرند کے آماجگاہ ہے۔ہمارا دیوسائی کا سفر ادھورا رہاکیونکہ گلیشئرز نے راستہ بند کیا ہوا تھا اور ہمارے ساتھ اور کئی سیاحوں کی گاڑیاں جو تقریباً اونچائی پر پہنچ چکی تھیں سب نے واپسی اختیار کی اور یوں ہم تشنہ لب رہ گئے۔ لیکن راستے میں پگھلتے ہوئے گلیشئرز کے نظارے مسحور کن تھے۔ کئی مقام پر گاڈی روک کر تصاویر اور ویڈیو بنائیں اور مصّمم ارادہ کر لیا کہ جلد اس جگہ کو سر کرنےکا سفر دوبارہ کریں گے۔ واپسی پر ڈرائیور نے ہمیں مایوسی سے نکالتے ہوئے سرد صحرا کی طرف گاڑی موڑ لی اور اسکردو کی خوبصورت گلیوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے ہم سرفرنگا سرد صحرا پہنچ گئے۔اسکردو کا سرد ریگستان۔ ایک اور حیران کن مقام۔۔ یہ صحرا ائرپورٹ سے نزدیک وادئ شغر جانے والے راستے پر واقع ہے۔ سرد صحراسطح سمندر سے 1300 فٹ اونچائی پر ہے۔ اس ٹھنڈے صحرا میں ریت کے بڑے  بڑے ٹیلے ہیں جو ایک حیرت انگیز نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب صحرا دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کے دامن اور بڑے بڑے گلیشئرز کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کو کٹپنہ کا صحرا کہا جاتا ہے۔ اس کا درجہ حرارت منفی 5 سے منفی 20 تک جاتا ہے۔ یہ جگہ  کسی عجوبے سے کم نہیں۔اس کے ٹیلے وادی میں چلتی تیز ہواؤں کے سبب اپنا مقام تیزی سے بدلتے ہیں جس کا نظارہ ہمیں بھی دیکھنے کو ملا جب ہم اگلے دن شغر فورٹ کی طرف رواں دواں تھے۔ نہ صرف یہ نظارہ بلکہ اس کے ساتھ ہی پہاڑوں پر برستے بادلوں کا مشاہدہ بھی کیا – یہ یادگار منظر بھی  ہم نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ صحرا کی ٹھنڈی ریت پر اونچے ٹیلے پر  ننگے پاؤں چڑھنے کا تجربہ انتہائی اچھوتا اور منفرد تھا۔ جتنا پاؤں اندر دھنستا اتنی ہی ٹھنڈی ریت ۔ غرض زندگی میں اتنے ممالک کے سفر کئے لیکن ایسے حیران کن مقامات کہیں دیکھنے کو نہیں ملے۔گیسٹ ہاؤس میں پہنچ کر ہم نے میزبان سے درخواست کی کہ  رات کا کھانا ہم خود پکائیں گے لہذا انہوں نے اپنے کچن تک ہمیں رسائی فراہم کردی جو کہ اونچائی پر گیسٹ ہاؤس کے سامنے واقع تھا۔ کچن کے پاس ہی پہاڑوں سے بہتی ہوئی نہر تھی اور درختوں کے جھنڈ میں خوبصورت جنگل کا سماں تھا۔ میں نے اور  ہماری گائیڈ سندس تنویر نے سوچا کہ  کیوں  نہ  آج خود کچھ کوکنگ کی جائے – اتفاق سے ہم دونوں کو کوکنگ کا شوق بھی ہے لہذا ہم دونوں نے مل کر آلو چکن  کا سالن بنایا جو نہ صرف  ہم نے بلکہ  گیسٹ ہاوس کے اسٹاف نے بھی خوب سیر ہوکر کھایا – یہ کھانا دس بارہ افراد کے لئے کافی تھااور سب نے خوب مزے لے کر کھایا۔ (جاری ہے)

گیسٹ ہاؤس کا کمرہ
سدپارہ جھیل
کچھ لمحے سدپارہ جھیل کے ساتھ
دیوسائی کے پگھلتے گلیشئر اورخون منجمد کر دینے والی سردی
کئی جگہ رک کر پیدل سفر کا لطف بھی اٹھایا

یہاں سے واپسی کا سفر کیونکہ گلیشئر نے ہمیں آگے بڑھنے سے منع کر دیا اور ہم سعادت مندی سے واپس ہو لئے
سرفرنگا سرد صحرا۔۔۔ وادئ شغر اور پہاڑوں پر برستا بادل

ریت کے ٹیلے کی جانب سفر

قدموں کے یہ نشان نہ جانے کب کے ہوا مٹا چکی ہو گی لیکن کیمرے میں محفوظ ہیں۔
رات کے کھانے کی تیاری
نمک ضرور چکھ لیں
مزیدار آلو چکن ، کچومر ،روٹی اور چاول۔۔۔ کھلی فضا، درختوں کے نیچے، ساتھ ہی بہتی آبشار اور سردی۔۔۔ یہ عشائیہ بھی یادگار رہے گا

Share            News         Social       Media