29/05/2023

ہم سے رابطہ کریں


’’کپڑے لائی بی بی جی‘‘
گاڑی جیسے ہی سگنل پر رُکی یکدم ہرنی کی طرح جانے کہاں سے پکے رنگ والی ، دمنتی دانتوں کو چمکائے تیزی سے میری طرف بڑھی اور اپنا آدھا سر کھڑکی کے شیشے میں ڈال کر گول گول آنکھیں گھمانے لگی۔
اُس کا کئی دنوں کا یہ سوال آج بھی سُن کر میں شرمندہ سی ہوگئی اور اپنی اس کوتاہی پہ غصہ آنے لگا۔
’’اوہ… معاف کرنا دمنتی آج میں بہت جلدی میں تھی دیر ہوگئی، کوئی بات نہیں دو چار روز میں لے آئوں گی۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’بس رہنے دو بی بی آپ یہی کرتی ہو ایمان سے … گاڑی میں آتی ہے گاڑی میں جاتی ہے۔ سوٹ نہیں رکھ سکتی، 6, 7سوٹ نہیں رک سکتی میرے لیے کچھ میر ی لڑکی کے لیے‘‘ سگنل کسی بھی لمحے کھلنے والا تھا۔ مگر وہ بضد تھی۔
’’یہ دیکھو ناں میری قمیض بس دو دن کی ہے، کیسی ختم ہوگئی ہے۔‘‘ وہ اپنی قمیض دکھانے لگی اور میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی۔ زرد لائٹ جل گئی تھی۔
’’ٹھیک ہے اب تم جائو اور یہ لو میں نے ڈیش بورڈ میں رکھی تھیلی سے پانچ روپے کا سکہ اُسے تھمایا۔
سبز روشنی کے ساتھ ہی گاڑی حرکت میں آچکی تھی، میں نے جلدی سے گاڑی گیئر میں ڈالی ، وہ چلاتے ہوئے زور سے بولی۔
’’کل کپڑوں کا تھیلا ضرور لانا میرے علاوہ کسی کو نہ دینا وہ پارو کو بالکل نہ دینا۔ میری لائن وہ فوراً کاٹتی ہے۔‘‘
پیچھے موجود گاڑیاں مسلسل ہارن دے رہی تھیں۔ بالکل برابر سے ایک گاڑی فل اسپیڈ میں گزری۔
’’بھکاریوں کو منہ لگانے کے لیے یہی جگہ ملی ہے۔‘‘
ٹریفک کے شور میں یہ جملہ ہوا ہوگیا۔ مگر دل میں نقش ہوگیا۔ آگے جانے والی گاڑی نے سڑک کے بیچوں بیچ معصوم سے بلی کے بچے کو کچلنے میں ذرا دیر نہ لگا کہ اگلا سگنل کسی بھی وقت بند ہوسکتا تھا۔
’’کتنا بے حس ہے‘‘ میں نے دل چھپے ہوئے درد کو دبائے ہوئے سوچا۔
دفتر کی فائلوں میں سرکھپاتے ہوئے بارہا دمنتی کی باتیں مجھے پریشان کرتی رہیں۔ گزشتہ دو تین مہینے سے وہ کلفٹن برج کے پہلے سگنل پر ملتی تھی۔ لال بتی سے گرین بتی کے درمیان وہ اپنی بات بڑے آرام سے کر جاتی اور مجھے لگتا جیسے واقعی اس کو دریا کوزے میں بند کرنا آتا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ اپنی پریشانی کا اس طرح تذکرہ کرتی کہ دل پسیج کر رہ جاتا۔ کبھی اس کو میں لے کر سول اسپتال جانا ہے، بوڑھی ماں کی آنکھیں ٹیسٹ کروانی ہیں۔ چھوٹی کا قد چھوٹا رہ گیا ہے۔ وہ پریشان ہو کر گھر سے نکل آئی ہے۔
’’بنگلوں میں جھاڑو، پونچھے اور برتن دھونے کے پیسے ذرا کم ہی ملتے ہیں۔ اس لیے باقی وقت سگنل پر گزار دیتی ہوں یہاں آپ سے دل دریا جیسے لوگ جو مل جاتے ہیں۔‘‘ وہ سو کا نوٹ ہاتھ میں دباتے ہوئے بولی۔
دمنتی باتیں بنانے کے فن سے واقف تھی، اُس کی کوشش ہوتی کہ سگنل کھلنے سے پہلے ہر گاڑی سے اُسے کچھ نہ کچھ مل جائے۔ کوئی گاڑی والا اس کو ٹکا سا جواب دیتا تو وہ اپنی اوقات اس طرح دکھاتی کہ اگلے روز وہ گاڑی والا ادھر سے گزرنا بھول جاتا۔‘‘
کیا عورت ہے یہ تو سیاستدان ہوسکتی تھی۔ کتنے آرام سے رام کرتی اور پینترا بدل کر وہ انداز دکھاتی کہ میں حیران رہ جاتی۔ دمنتی کے دعائیہ کلمات بھی عجیب ہوتے۔
’’ہائے بی بی جی! کیا اچھا بالوں میں تونے پھول کلپ کسا ہے۔ رب تجھے اور دے ایسا میری چھوٹی کے لیے لے آنا۔‘‘
’’ہاں لے آئوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اور سُن بی بی تیرا یہ تین رنگ کا دوپٹہ بہت اچھا لاگے ہے۔ بڑی سندر لگتی ہے تُو، میری بڑی کے لیے لے آنا۔‘‘ اور پھر وہ اپنی فہرست گنوانا شروع کردیتی۔ میں سوچتی۔
’’زندگی نے اُسے محرومیاں عطا کی ہیں۔ ایسی محرومیاں جو اس کی اولاد کے حصے میں آگئی ہیں۔ ہر ماں کی طرح اس کی بھی خواہش ہے کہ اس کی اولاد اچھا کھائے پہنے۔‘‘
پھر یوں ہوا کہ میں دفتر کے کاموں میں ایسی اُلجھی کہ صبح سویرے جلدی جانا اور رات کو دیر سے گھر آنا زندگی کا جیسے معمول بن گیاتھا۔ بہت دنوں کے بعد دفتر کے بڑھتے ہوئے کاموں سے سُکون ملا تو اپنے آپ کو دیکھنے کا خیال آیا۔ بچے عجیب طرح کی خواہش میں مبتلا رہتے ہیں۔ ’’مما آپ کے پاس تو ہمارے لیے وقت ہی نہیں۔‘‘ نوشی منمنا کر بولی۔
’’سچی بات تو یہ نوشی کہ مما کو اپنے دفتر کی زندگی بہت پیاری ہے اور پپا کو اپنا کاروبار ’’چودہ سالہ سونو اپنے بالوں کو کلپ کی قید سے آزاد کرتے ہوئے بولی۔ دن بدن اس کا قد نکلتا جا رہاتھا۔ میں نے اُسے غور سے دیکھا اور اپنی دونوں بچیوں پر پیار آگیا۔ اور اسی لمحے دمنتی میری آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔ اس کی خواہشیں زبان بن کر میرے اطراف بولنے لگیں، تب میں نے کہا۔
’’نوشی اور سونو آج ایسا کرتے ہیں کہ شاپنگ کو چلتے ہیں کھانا باہر ہی کھائیں گے۔‘‘
’’یس مما…!‘‘ دونوں نے نعرہ لگایا اور اُن کی آنکھوں میں جگنو رقص کرنے لگے۔ میرا دھیان پھر دمنتی کی طرف چلا گیا۔ چلو اچھا ہے کل اُس کے مانگنے سے پہلے دے دوں گی۔‘‘
چھ گھنٹے شاپنگ کی نذر ہوگئے تھے۔ سونو اور نوشی نے اپنی پسند کی کتنی ہی چیزیں لے لیں۔ وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتیں وہ فوراً ہی پیک ہوجاتی۔ اولاد کی خوشی میں تو والدین کی خوشی ہے۔ پھر والدین کماتے کس لیے ہیں۔ آئسکریم پارلر سے نکلتے ہی کتنے ہی فقیر، کتنے ہی بھکاری، بھکارن ، اُن کے بچے میری طرف لپکے۔
’’مما ان لوگوں کو کوئی اور کام نہیں ہے، سوائے ہاتھ پھیلانے کے۔‘‘ سونو نے ایک بچے کو معاف کرو کہتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بیٹا… اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں کتنا نوازا ہے او رکتنے اچھے حال میں رکھا ہے ان لوگوں کو دیکھ کر سبق سیکھو۔ ایک دو روپے دینے میں حرج نہیں ہے۔ دھتکارنے والے لہجے میں بات مت کیا کرو۔‘‘ سونو کو پیار سے سمجھایا تو اس نے دو روپے کا سکہ بوڑھی مائی کی طرف بڑھادیا اور اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا دی۔
’’دیکھا تم نے…‘‘ میں نے سونو سے کہا ’’نہ دیتی تم اور بدتمیزی بھی کرتی تو ان کا دل دکھتا اور ان کے دل سے آہ نکلتی اب تم نے یہ معمولی سکہ دیا ہے تو تمہارے لیے اس نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی ہے، چاہے پروفیشنل انداز میں کی ہو لیکن کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نیتوں کا جاننے والا ہے ، اس لیے اپنے آپ کو درست رکھنا چاہیے۔‘‘
ان ہی باتوں میں راستے کا سفر تمام ہوا۔ دونوں بچیاں بے حد خوش تھیں۔ دمنتی کے لیے لی ہوئی چیزیں میں نے سنبھال کر ایک طرف کر رکھیں کہ صبح لے کر جانی تھیں۔ سونو ذرا بات سنو۔ مجھے ایک دم کچھ یاد آیا۔ جو کپڑے تم پہنتی نہیں ہو، کیا ابھی نکال سکتی ہو؟
’’کیوں مما…‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’بس بیٹا کسی ضرورتمند کو دینا ہے۔ اگر ابھی نکال دو تو…‘‘
’’اچھا مما کوئی اور وقت ہوتا تو وہ کل پر ٹال دیتی مگر آج مما نے اُنہیں بہت خوش کردیا تھا، اس لیے وہ اُنہیں خوش دیکھنا چاہتی تھیں، ذرا سی دیر میں تقریباً وہ اپنے 6, 7سوٹ نکال کر لے آئی۔
’’مما کچھ سوٹ ایسے جو تھوڑے چھوٹے ہوگئے ہیں مگر صرف دو دفعہ کے پہنے ہوئے ہیں ایک کی شرٹ چھوٹی ہوگئی ہے اور آج کل انڈین اسٹائل کے سوٹ زیادہ پاپولر ہیں، اس لیے آپ دے دیجئے گا۔‘‘
وہ آنکھوں میں نیند لے کر بات کررہی تھی۔ ’’اوکے بیٹا تم سوجائو… بہت بہت شکریہ!‘‘
اللہ حافظ کہہ کر وہ چلی گئی۔ چلو اچھا ہوا کہ دمنتی کے لیے اچھا خاصا سامان اکٹھا ہوگیا۔ میرے کپڑے8,7ہوگئے ہیں۔ اتنے جوڑے کافی ہیں۔
دو تھیلے جوڑوں کے اور چھوٹی چھوٹی اور دوسری چیزوں کا ایک اچھا خاصا تھیلا بن گیا تھا۔ تمام چیزوں کو دیکھ کر مجھے انجانی خوشی ہورہی تھی اور میں اپنے آپ کو بہت پرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔
’’ٹھیک ہے ناں…‘‘ کھٹ سے دمنتی سامنے آگئی۔
کیا بات ہے چپکے چپکے کیا سوچا جارہا ہے۔ فواد جانے کب آگئے تھے۔ پتہ ہی نہیں چلا اور میں سوچوں میں دمنتی سے اُس کی رائے پوچھ رہی تھی۔
’’آپ کب آئے؟ آپ نے بہت انتظار کروایا…‘‘ میں نے اپنی کیفیت بتائی۔
’’ایک تو تم بہت عجیب ہو دل رکھنے کو ہی کہہ دیا ہوتا کہ آپ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ وضاحت کرنے کی عادت تمہاری گئی نہیں‘‘۔ وہ مسکرا کر بولے اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرنے لگے۔ میں خاموش رہی تو فواد خود ہی بولے۔
’’ کیا کچھ خرید لیا؟ بچوں نے بہت انجوائے کیا ہوگا۔‘‘
اور میں شاپنگ بیگز کھول کر دکھانے لگی۔
وہ سونو اور نوشین نے آج کافی دنوں کے بعد اپنی خواہشوں کو پورا کیا ہے۔
’’اور یہ تھیلے بھی تو دکھائو۔‘‘ فواد نے دمنتی کے تھیلوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ یہ گھر کے نہیں ہیں۔ میں آپ کو ساری بات بتاتی ہوں۔‘‘ میںنے فوراً کہا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ یہ شاپنگ میری نہیں ہے۔‘‘ فواد نے کہا۔
’’آپ تو فواد اپنی شاپنگ میرے ساتھ کرتے ہیں۔ مجھ پہ کہاں اعتبار کرتے ہیں۔‘‘ میں روہانسی ہوگئی۔
’’پھر وضاحت… خدایا بیگم فریحہ فواد… کم از کم آپ کو چھیڑنے کا حق تو رکھتا ہوں‘‘۔ فواد نے ہلکا سے ہاتھ میرے سر پر مارا۔ اور میں ہنس دی۔ ’’پتہ ہے فواد کیا بات ہے۔‘‘ میںنے فواد کی توجہ اپنے جانب مبذول کی۔
ایک عورت دمنتی نام کی ہے جو روزانہ مجھے کلفٹن برج کے پہلے سگنل پر ملتی ہے، وہ بے چاری بہت غریب ہے گھروں میں بھی کام کرتی ہے اوراپنا مسئلہ بھی لوگوں کو بتاتی ہے۔ اس کے گھر میں بڑی پریشانی ہے اور …‘‘
’’اور اس کی پریشانی اور مسئلہ تمہارے سر پر سوار ہوگیا تھا۔‘‘
لیکن فواد تم اس کی باتیں سُنو تو تمہارے دل بھی پسیج جائے گا…‘‘ مجھے لگا کہ فواد خفا ہورہے ہیں۔
’’دیکھو فریحہ اس طرح کی عورتیں ہر جگہ ہ رسگنل پر ہوتی ہیں۔ اب یہ تو نہیں کہ ان مسئلوں کو لے کر گھر پہ آجائو، اپنے حواس پر سوار کرلو، تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کس قسم کی عورتیں ہیں، جذباتی وار کرتی ہیں، سارے حربے جانتی ہیں۔ تم ہمدرد ہو، غمگسار ہو، جذباتی ہو اور سب سے بڑھ کر بے وقوف ہو… ہر ایک کی باتوں میں آجاتی ہو۔‘‘
فواد کی نرمی کہیں غائب ہوگئی تھی اور غصہ اپنی حدوں کو چھو رہا تھا۔ ’’لیکن فواد میری بات تو سُنو‘‘۔ میں نے کچھ کہنا چاہا۔
’’چپ رہو تم…‘‘ فواد غصے سے بولے ’’میری بات سُنو… تم کو ہر مسئلے کو اس حد تک اپنے اعصاب پر سوار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پریشانیاں اُسے چھوڑ کر تمہارا ہی گھر دیکھ لیں۔ ماضی میں بھی تم ایسی ہی حماقتیں کرچکی ہو، تمہارے جذباتی نیچر اور تمہاری خوامخواہ کی نیکیاں اُلٹا تمہیں ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ چلو وہ تو رشتہ داری میں دوستی تک معاملہ تھا۔ یہاں تمہارے احسان کا تمہیں اُلٹا صلہ ملا۔ یہ بہت چالاک عورتیں ہوتی ہیں اگر ایک دفعہ کوئی ان کے قابو میں آگیا تو وہ پوری طرح اس کو گرفت میں لے لیتی ہیں۔ تمہیں زیادہ ہمدرد پاکر کبی تمہیں اسپتال لے جائیں گے، کبھی تمہارے گھر پہنچ جائیں گی اور دیکھا تمہیں لوٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گی…‘‘
فواد نے اچھی خاصی تقریر کردی تھی جسے سن کر میں خوفزدہ ہوگئی تھی۔
’’فواد میں نے اس کے لیے یہ چیزیں اور کپڑوں کے جوڑے رکھ لیے ہیں، اُن کا کیا ہوگا؟‘‘
’’اُن کا یہ ہوگا کہ کل آپ آخری بار اُن کو یہ تمام چیزیں دے کر آئیں گی اور اس طرح کے غم آئندہ نہیں پالیں گی۔ یہ میری آخری واننگ اور حکم ہے۔‘‘ وہ سختی سے بولا اور بستر پر لیٹ گیا۔ یہ اس بات امر کا اشارہ تھا کہ اب بات نہیں ہوگی۔
’’ٹھیک ہے…‘‘ میں نے نائٹ بلب آن کیا اور اس کی سبز روشنی میں میرے آنسو میری ہتھیلی پر گرتے رہے۔ یہاں تک کہ ہتھیلیاں بھی آنسوئوں کو بھرتے بھرتے تھک گئیں۔
سُنا کے حالِ غمِ دل بڑے خلوص کے ساتھ
ہم اُس کی آنکھ میں آنسو تلاش کرتے ہیں
جانے رات کے کس پہر میری آنکھ لگ گئی تھی۔ صبح اُٹھی تو دماغ بوجھل تھا، فواد کی باتوں کا اثر بھی غالب تھا، ناشتے کی میز پر سوائے میرے اور فواد کے دونوں بچیاں بہت چہک رہی تھیں۔ بچیاں اسکول جارہی تھیں۔ فواد نے اپنے دفتر کے لیے گاڑی کی چابی اُٹھائی تو میری طرف دیکھا۔ ’’ٹھیک ہے فریحہ… مگر اپنا خیال رکھنا…‘‘ سنجیدگی سے مسکرا کر یہ کہتے ہوئے فواد گاڑی نکال کر لے گئے اور میں پُرسکون ہوگئی اور یہ سوچ کر بھی کہ فواد نے مجھے زیادہ دیر آزردہ نہیں دیکھ سکتے۔ سفر آسان ہونے کے خیال سے آسودگی جیسی نعمت پہ اللہ کا شکر ادا کیا اور دفتر کے لیے تیاری کرنے لگی۔
دمنتی کے تھیلے پچھلی سیٹ پر رکھے اور گاڑی جانے پہچانے شناسا راستوں سے گزرنے لگی۔ روز یہ راستے ہوئے، سڑک کے دونوں اطراف سفید اور گلابی گلاب، جگہ جگہ اسپیڈ بریکر بنائے ہوئے تھے۔ راستوں سے اتنی آشنائی تھی کہ کس جگہ سڑک کے بیچوں بیچ گڑھا ہے۔ لاشعوری طور پر گاڑی اس جگہ سے بچ کر نکل جاتی۔ گاڑی کلفٹن کے برج کے سگنل پر پہنچنے والی تھی۔ گرین سگنل دور سے دکھائی دے رہا تھا۔ اللہ کرے سگنل بند ہوجائے۔ میں نے دعا کی تاکہ دمنتی کو اس کی چیزیں دے سکوں اس کے چہرے کا اطمینان اور خوشی دیکھ سکوں۔ روز کی بے کلی، بے چینی سے اس کے وجود کو نکال سکوں۔ قبولیت کا لمحہ تھا۔ میری گاڑی کے پہنچنے تک سگنل بند ہوچکا تھا۔ تب ہی ایک گاڑی کے مسافر سے اُلجھی ہوئی تیز تیز آواز میں بولتی ہوئی دونوں ہاتھ اُٹھا کر اس کو مغلظات بک رہی تھی۔ وہ گاڑی سگنل توڑتی ہوئی نکل گئی میں نے اپنی گاڑی فٹ پاتھ سے قریب روکی۔ دمنتی اپنی دوسری ساتھیوں کے ساتھ قریب کھڑی بتارہی تھی مجھے دیکھ کر ان عورتوں نے دمنتی کو بتایا تو وہ بھاگی ہوئی قریب آگئی۔
’’شُکر ہے بی بی جی… تجھے میرا خیال تو آیا کہاں غائب ہوگئی تھی تُو… تیرا بڑا انتظار رہتا ہے مجھے، آج بھی بڑی سوہنی لگ رہی ہے۔‘‘
دمنتی کے چہرے کا رنگ مجھے دیکھ کر بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے کا عکس بھی نہ تھا۔ ہر گاہک سے نمٹنے کا گر وہ جانتی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے کے احساسات عجیب ہوجاتے۔ اس سے پہلے کہ اس کی زبان چلتی، ’’سُنو دمنتی اس سے پہلے کہ سگنل کھل جائے تم تھیلے لے لو۔ اس میں تمہارے اور تمہاری چھوٹی کے کپڑے ہیں اور اچھے خاصے ہیں۔ اور یہ تھیلا دیکھ رہی ہو۔ اس میں وہ چیزیں ہیں جو تمہیں پسند ہیں اور پسند آئیں گی۔‘‘
وہ تھیلے دیکھ کر پھولے نہ سما رہی تھی۔
بی بی جی تُو ہمیشہ خوش رہے۔ تُو سدا سہاگن رہے … رب سائیں تجھے بہت دیویں… تو رکھ رکھ کے خوشیاں بھولے… بی بی جی تُو بہت اچھی ہے … بہت اچھی…‘‘
اس کی دعائوں کا دائرہ بہت وسیع ہوتا جارہا تھا اور زرد لائٹ چل اُٹھی۔ اچھا دمنتی میں چلتی ہوں۔
’’ٹھیک ہے بی بی جی… ‘‘ وہ احسان مندی سے بولی… ’’بس کسی روز تو مجھے اسپتال لے جا… میری بڑی کو درد اُٹھتا ہے، میں چھوٹی کو بھی لے آئوں گی…‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے …‘‘کہتی میں نے گاڑی آگے بڑھالی، اور وہ تھیلے سنبھالتی بڑے فخر کے ساتھ آگے بڑھ گئی، ساری عورتیں اس کی طرف بڑھ آئیں جیسے مبارکباد دے رہی ہوں۔ اُن کی باتوں کی بھنبھناہٹ میرا پیچھا کرتی رہی۔ دمنتی ملکہ بنی اُن سب سے بازی لے گئی تھی۔ شُکر ہے میرا وعدہ پورا ہوگیا اور وہ خوش بھی ہوگئی کم از کم وہ اور اس کے بچے ہمیں دعا تو دیں گے۔ کپڑے پہن کر خوش ہوں گے۔ اُن کی خوشی کے تصور سے میرا دل خوش ہونے لگا۔
یونہی کئی روز گزر گئے، روزانہ میرا اُدھر سے گزر ہوتا… وہ ہر گاڑی کے رکنے پر تقاضہ کرتی۔ سب سے پہلے کپڑوں کا تقاضہ کرتی اور وعدہ لیتی، کبھی بپھر جاتی ، کبھی اکڑ جاتی اور کبھی دعائوں کی پٹاری کھول دیتی۔ میرے پاس آتی تو کپڑوں کا رونا ضرور روتی۔ میں وعدہ کرتی اور 5روپے کا سکہ دے کر ٹال دیتی۔ فواد کے غصے سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ پھر تنگ آکر میں نے وہ راستہ تبدیل کردیا۔ وقت کا کام گزرنا ہے ، گزر ہی جاتا ہے۔
’’سُنو یونیورسٹی روڈ چلو گی میرے ساتھ…‘‘ میری آفس کولیگ ماریہ نے کہا۔
’’کیوں خیریت…‘‘ میں نے اپنی فائلیں سمیٹتے ہوئے کہا۔
اصل میں یونیورسٹی روڈ پر بہت بڑا منگل بازار لگتا ہے اور مجھے صوفوں کے لیے کپڑا لینا ہے اور کشن کورز بھی زبردست ملتے ہیں اور کچھ ضروری چیزیں بھی ہیں تم خود چل کر دیکھو، تمہیں بھی بہت ساری چیزیں مل جائیں گی جو عام شاپنگ سینٹر میں نہیں ملتیں۔
کچھ ماریہ کا اصرار کچھ جانے کا اشتیاق، میں ماریہ کے ساتھ منگل بازار چلی آئی۔ وسیع و عریض گرائونڈ میں ایک ہجومِ بیکراں تھا۔ جگہ جگہ مختلف اشیا کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ دُنیا بھر کا سامان اس بازار میں نظر آرہا تھا۔ بھانت بھانت کی بولیاں کانوں میں…
’’اس کو منی دبئی شاپنگ مال کہا جاتا ہے‘‘۔ ماریہ نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ اچھامیں حیران ہوئی۔
’’آئو اس طرف چلتے ہیں…‘‘، ماریہ میرا ہاتھ پکڑے برتنوں اور دوپٹے کے اسٹال سے آگے بڑھتے ہوئے بولی۔
’’شُکر ہے خدا کا تمہارا راستہ تو تمہیں ملا‘‘۔ میں واقعی تھک گئی تھی۔ ’’تو بہ کس قدر رش ہوتا ہے یہاں… لگتا ہے سارے شاپنگ سینٹر یہاں جمع ہوگئے ہیں۔‘‘ میں بڑبڑائی۔
’’ارے مار دیا بھائی … آپ کے اسٹال تک پہنچتے پہنچتے حالت بُری ہوجاتی ہے… آپ نے بھی کس کونے پر لگایا ہے۔‘‘ ماریہ اطمینان کا سانس لے کر بولی۔
’’باجی جی ساری ہیرا دکانیں اسی لائن میں ہیں…‘‘ وہ فخر سے بولا اور ماریہ کے آگے کپڑوں کے تھام کھول دیے اور میں ہیرا دکانوں کا جائزہ لینے لگی۔
ہر اسٹال پر رش تھا۔ سامنے والی ساری لائن پر ریڈی میڈ کپڑے لٹکے ہوئے تھے جو ہوا کی تیزی سے لہرارہے تھے۔ خواتین ہر اسٹال پر موجود تھیں۔ کچھ نیچے پھیلے ہوئے کپڑوں پر بحث کررہی تھیں اور کچھ لٹکے ہوئے سوٹوں کی قیمت کم کرا رہی تھیں۔ ایک اسٹال پر خواتین کا کچھ زیادہ ہی رش تھا۔
’’لگتا ہے یہاں سوٹ زیادہ ہی اچھے ہیں۔ پھر سیل کا چکر ہے اسی سوچ میں… میں تجسس کے ہاتھوں آگے بڑھ گئی۔
عام دکانوں کی بہ نسبت اسٹال پر غیر معمولی رش تھا۔
’’افوہ کس قدر چالاک عورت ہے تین سوٹوں پر پانچ روپے کم کیے ہیں۔ جاہل کہیں کی، پسینے سے شرابور ایک خاتون اسٹال سے باہر نکلیں۔ میںنے اندر جانے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ وہ خاتون مجھے دیکھ کر بولیں۔ ’’جائیے آپ بھی جائیے مگر ذرا سنبھل کر عجیب سی عورت ہے۔ کیسے بات کرتی ہے۔ اللہ بچائے…‘‘
اس قدر رش ہے کسی عورت کے تیز تیز بولنے کی آواز آرہی تھی۔ اسٹال کے چہار جانب خوبصورت، دیدہ زیب لباس تھے جو اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ یو لگتا تھا کسی بوتیک شاپ پہ کھڑے ہوں… پھر تو رش کا عالم ٹھیک ہے۔ ایک خاتون کو ایکسکیوز کرکے میں مزید آگے بڑھ گئی۔ کسی سوٹ پر بحث ہورہی تھی۔
’’نہ جی بیگم صاحبہ… یہ کوئی معمولی کپڑے پہ بنا ہوا کام نہیںہے۔ ذرا سوٹ کو غور سے دیکھو، دبئی سے مال آیا ہے کوئی اُتراوا نہیں ہے۔ پہنے گی تو بہت سوہنی لگے گی… تیرے دل سے دعا نکلے گی میرے لیے… پیسے کا منہ کیا دیکھتی ہے لینا ہے تو لے لے ورنہ تیرے پیچھے کھڑی آنٹی کا دل ہے اس پہ… چل چھوٹی، میرون دکھا بیگم صاحبہ کو…‘‘ وہ جال پھینک کر نیا شکار بھی تلاش کرتی۔
’’یہ تو دمنتی ہے… اس کا انداز اس کا لہجہ تو دل و دماغ میں بسا ہوا تھا… یہ یہاں … یہ بھکارن…؟؟‘‘
سوداگری کا ایک نیا روپ… نیا انداز مجھے حیران کردینے کے لیے کافی تھا۔
٭…٭…٭..سیما رضا ردا۔۔کراچی پاکستان

Share            News         Social       Media